بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ساس اور شوہر کا لڑکی کے ساتھ ظلم کے بنا پر تنسیخِ نکاح


سوال

1۔میرے والد کے انتقال  کے تین دن  بعد والد کی وصیت کی مطابق میری شادی ہوگئی، شروع میں ساس اور شوہر کا رویہ بہت اچھا تھا،لیکن بعد میں ساس کی دخل اندازی کی وجہ سے حالات خراب  ہوگئے، ساس کی دخل اندازی  میری ازدواجی تعلقات  تک سرایت  کرگئے، مجھ  سے پوچھتی ہیں  کہ تم نے نہانے کے فرائض پوری  کیے  ہیں  یا نہیں؟ جماع سے پہلے دعاپڑھی تھی یا  نہیں؟  دن میں دوبار کیوں کیا ؟ کبھی جماع کرنے پہ ناراض بھی ہوجاتی ہیں،  ہر کام میں نقص نکالنا، مجھے کام کرنے نہ دینا ، جھاڑو  ہاتھ سے لینا کہ تو  جھاڑو نہیں لگاسکتی، 70 سال کی عمر میں خود جھاڑو دینا یا پھر بیٹے سے دلوانا ، ڈیڑھ سا ل شادی کے ہوئے ہیں، لیکن میں نے زیادہ کھانے نہیں بنائے، اس طرح کے  بہت  سارے  معاملات میں ساس اور اس کے کہنے پر اس کا بیٹا مجھے بہت تنگ کرتے ہیں، حال آں کہ میں ہر قسم کی خدمت کے لیے تیار ہوں۔

اسی طرح  مجھے زبردست نفسیاتی ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا، ایسا لگتا ہے  کہ وہ ڈاکٹر بھی ان سے ملا ہوا تھا، ماں بیٹا اکثر مجھ سے چھپ کر ڈاکٹر کے پاس جاتے تھے، اس ڈاکٹر نے مجھے ایک انجیکشن لگادیا اور بہت ساری خطرناک دوائی بھی لکھ دی، اب کہتے ہیں کہ اگر ہماری پاس رہنا  ہے تو نفسیاتی ڈاکٹر کے پاس جانا ہوگا،حالاں کہ میں 25سال کی پڑھی لکھی لڑکی ، یونیورسٹی میں پوزیشن ہولڈر ہوں،مجھے کوئی نفسیاتی عارضہ نہیں،شریعت ایسے رویہ کے بارے میں کیا کہتی ہے؟

2۔مجھے یہ شادی ختم کرنا  چاہیے یا  شادی کو چلانے کےلیے اقدامات  کرنی چاہیے؟

3۔میرے ان حالات  کو دیکھتے   ہوئے پڑھنے کے لیے کوئی وظیفہ  بھی ارشاد فرمالیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر سائلہ کا بیان واقعتًا صحیح اور درست ہے کہ سائلہ کی ساس ازدواجی معاملات میں سائلہ سے پوچھ گچھ کرتی ہے، میاں بیوی کے مخصوص افعال پر ناراضی کا اظہار کرتی ہے،تو ایسی صورت میں ساس کے یہ سوالات اور روک ٹوک انتہائی غیر مناسب اورشرم وحیا  کے منافی ہے، اس پر لازم ہے کہ اس  قسم کی گفتگو سے پرہیزکرے، باقی اگر سائلہ کی ساس شفقتًا سائلہ کو گھر کے کام کاج سے منع کرتی ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں، سائلہ کو اس پر ناراض نہیں  ہونا چاہیے، اور اگر واقعتًا  ساس  سائلہ کو کام کاج میں  بلاوجہ تنگ کرتی ہے،نقص نکالتی ہےاور دونوں مل کر سائلہ کو پریشان کرتے ہیں تو ان کا  ایسا کرنا شرعًا جائز نہیں، ناحق کسی کو پریشان کرنا،تنگ کرنا سخت گناہ ہے۔

2۔ سائلہ کو  چاہیے اس شادی کو قائم رکھنے  کی کوشش کرے،البتہ اگر اس شادی کو قائم رکھنا ممکن نہ ہواورسائلہ کوبلاوجہ نفسیاتی ڈاکٹرکے پاس لے جاکرانجکشن لگوانےاوردیگرخطرناک دوائیوں کے کھانے پر مجبور  کریں تو ایسی صورت میں سائلہ شوہر کو  طلاق یاحق مہر کے بدلے میں خلع پر راضی کرکے  خلاصی کی کوشش کرے، اگر شوہر  طلاق یاخلع کے  لیے آمادہ نہیں  ہوتا تو سائلہ  کسی مسلمان جج کی عدالت میں اپنے شوہر کےظلم و ستم(نفسیاتی ڈاکٹر کے پاس لے جانےپر مجبورکرکےانجیکشن لگوانےاور دیگر خطرناک دوائیوں کےکھانےپر مجبورکرنے)کی بنا پرفسخ نکاح کا مقدمہ دائر کرے،اولًا اپنے نکاح کو شرعی گواہوں کےذریعے ثابت کرے اور پھر مذکورہ وجوہات  کو دو گواہوں سے عدالت میں   ثابت کرے  ،اس کے بعد قاضی   شوہر کو عدالت میں حاضر ہونے کا سمن جاری کرے،اگرشوہر عدالت میں حاضر ہوکر بیوی پر   ظلم و ستم  سے باز آنے اور گھر بسانے پر آمادہ ہوجا ئے  توبہت اچھا ،اگر وہ عدالت میں حاضرنہ ہو یا حاضر ہو لیکن بیوی پر ظلم و ستم اور  زیادتی کرنے سے باز  نہ آئےتو عدالت   شوہر کو حکم دے گی  کہ بیوی کے حقوق صحیح طور پر ادا  کرے اور ظلم وستم سے باز آجائے   یا پھر بیوی کو  طلاق یا خلع کے ذریعے آزاد کردے،  ورنہ ہم خود تفریق  کردیں گے، اگر شوہر دونوں صورتوں میں سے کسی صورت پر عمل کرنے کو تیار نہیں ہو تا،یاسرے سے عدالت میں  ہی حاضر نہ ہو، تو  عدالت عورت کو ظلم و ستم سے بچانے  کے لیے خود تنسیخ نکاح کا فیصلہ صادر کردے گی،جس کے بعدمطلقہ اپنی عدت (پوری تین ماہواریاں)گزارکردوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔

3۔سائلہ مندرجہ ذیل وظیفہ کا اہتمام کرے: حَسْبُنَااللّٰهُ وَنِعْمَ الوَكِیْلُ،کثرت کے ساتھ یہ وظیفہ پڑھتی رہے،ان شاء اللہ بہتری ہوگی۔

فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ہے:

"(سوال   ):میرا خاوند مجھ سے ایک عرصہ سے سخت ناراض اور خواہاں جان کا ہے  دو حملہ مجھ پر کر چکا ہے ، ایک حملہ بندو ق کا اور دوسرا حملہ چاقو کا ناک کاٹنے کی نیت سے کیا ،چوں کہ مجھے اپنی جا ن کا اندیشہ ہے ، اس لیے میں اس کے نکاح سے جدا ہونا چاہتی ہوں ۔

(الجواب ) ایسے شوہر کے پاس بھیجنا عورت کو نہ چاہئے تاوقت یہ کہ  اس کی طرف سے اطمینان نہ ہو لیکن ا س کے نکاح سے  بدون طلاق کے جدا نہیں ہوسکتی،لیکن اگر عدالت جبراً شوہر سے طلاق دلوا دے گی تب بھی طلاق واقع ہوجاوے گی "۔

حاشية ابن عابدين ميں هے: 

"(ولو ‌قضى ‌على ‌الغائب بلا نائب ينفذ) في أظهر الروايتين عن أصحابنا ذكره منلا خسرو في باب خيار العيب"۔

(فتاوی شامي،5/ 414،ط:سعید)

حدیث شریف میں ہے:

"عن أبي هریرۃ رضي الله عنه أن رسول الله ﷺ قال: إیاکم والظن فإن الظن أکذب الحدیث، و لاتحسسوا و لاتجسسوا و التجس هو البحث و التفتیش عن معائب الناس و سرائرهم."

(ابوداؤد، باب فی الظن، النسخۃ الہندیۃ۲/۶۷۳، دارالسلام رقم: ۴۹۱۷)

و في الهداية:

"وإذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به " لقوله تعالى: {فلا جناح عليهما فيما افتدت به} [البقرة: 229] " فإذا فعلا ذلك وقع بالخلع تطليقة بائنة ولزمها المال".

(ج:٢ , ص: ٢٦١, ط: دار احياء التراث العربي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100463

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں