بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شرعی سفرمیں سہولت کے باوجود فرض نمازوں میں قصرکرنا واجب ہے


سوال

اگر ہم سفر پر ہوں نماز کا وقت ہو جائےہمیں کسی طرح کی جلدی نہ ہو،تو ہم قصرنماز کی بجائےمکمل نماز یعنی چاررکعت فرض پوری پڑھ سکتے ہیں؟جب کہ سفر بھی ایک دن کا ہو، 100 کلو میٹر سےبھی زیادہ ہو۔

جواب

اگر کوئی شخص  اپنے شہر/ گاؤں سے باہر سوا ستتر (77.25) کلومیٹر  یا اس سے زیادہ سفر کے ارادے سے روانہ ہو اور اپنے شہر،قصبے کی آبادی سے نکل جائے تو وہ شرعی مسافر کہلاتاہے، پھر جب تک وہ اپنے علاقے میں نہ لوٹ آئے یا کسی آبادی میں پندرہ دن یا اس سے زیادہ اقامت کی نیت سے نہ ٹھہرجائے تب تک وہ شرعی مسافر رہتاہے،لہٰذاصورتِ مسئولہ میں سائل کاسفراگرچہ ایک دن کاہو، اورسائل کودوران سفرکسی قسم کاکوئی جلدی بھی نہ ہوتوہرحال میں سائل پراتمام یعنی پوری چاررکعت پڑھنےکےبجائےقصریعنی دورکعت پرھناواجب ہے،اگر سائل دوران سفرچاررکعت  پڑھے گا تو گناہ گار ہوگا البتہ اگر مقیم امام کی اقتدا میں پڑھے تو پوری چار رکعت پڑھے گا، ایسی صورت میں سنن و نوافل پڑھیں، وہ نہ چھوڑیں۔

صحیح مسلم میں ہے:

"عن ‌ابن عباس قال: « فرض الله الصلاة ‌على ‌لسان ‌نبيكم ‌صلى ‌الله ‌عليه ‌وسلم في الحضر أربعا، وفي السفر ركعتين، وفي الخوف ركعة."

(‌‌باب صلاة المسافرين وقصرها، ج:2، ص:143، ط: دار الطباعة العامرة)

وفیہ ایضاً:

"عن ‌يعلى بن أمية قال: « قلت ‌لعمر بن الخطاب : {فليس عليكم جناح أن تقصروا من الصلاة إن خفتم أن يفتنكم الذين كفروا} فقد أمن الناس، فقال: ‌عجبت ‌مما ‌عجبت ‌منه فسألت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك فقال: صدقة تصدق الله بها عليكم، فاقبلوا صدقته."

(‌‌باب صلاة المسافرين وقصرها، ج:2، ص:143، ط: دار الطباعة العامرة)

فتاوٰی شامی میں ہے:

"(صلى الفرض الرباعي ركعتين) وجوبا لقول ابن عباس: «إن الله فرض على لسان نبيكم صلاة المقيم أربعا والمسافر ركعتين» ، ولذا عدل المصنف عن قولهم قصر لأن الركعتين ليستا قصرا حقيقة عندنا بل هما تمام فرضه والإكمال ليس رخصة في حقه بل إساءة."

(‌‌كتاب الصلاة، ‌‌باب صلاة المسافر، ج:2، ص:124، ط: سعيد)

نورالایضاح میں ہے:

"وإن اقتدى مسافر بمقيم في الوقت صح وأتمها أربعا. وبعده لا يصح وبعكسه صح فيهما."

(كتاب الصلاة، باب صلاة المسافر، ص:130، ط: المكتبة العصرية)

فتاوی شامی میں ہے:

"فلو أتم مسافر إن قعد في القعدة الأولیٰ تم فرضه ولکنه أساء، لو عامداً ؛ لتاخیر السلام، وترک واجب القصر، وواجب تکبیرة افتتاح لنقل، وخلط النفل بالفرض و هذا لایحل."

(باب صلوة المسافر، ج:2، ص:128، ط: سعيد) 

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144504102514

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں