آج کل ہمارے علاقے میں لوگ ایڈوانس میں پیسے دے کر سریہ یا سیمنٹ یا اس طرح کی کوئی چیز کی بکنگ کر لیتے ہیں، مثال کے طور پر میں دوکاندار کے پاس جاتا ہو ں اور اس کو 2 لاکھ روپے دیتا ہوں اور کہتا ہو ں کہ یہ پیسے رکھ لیں، اور میری سیمنٹ کی بکنگ کر لیں اس شرط کے ساتھ کہ اگر سیمنٹ کی قیمت کم ہوئی تو آپ مجھے آج والی قیمت نہیں بلکہ وہ کم قیمت لگائیں گے اور اگر زیادہ ہوئی تو آج کا ریٹ ہے یہی والا، اب بیشک میں سال بعد یا دو سال بعد لوں تو ریٹ آج والا ہی لگے گا، بیشک سیمنٹ مہنگا ہی کیوں نہ ہوا ہو کیا ایسا کرنا ٹھیک ہے؟
صورت مسئولہ میں سریہ یا سیمنٹ کی بکنگ اس شرط پر کرنا کہ اگر قیمت کم ہوئی تو کم قیمت پر دیں گے اور اگر قیمت زیادہ ہوئی آج کے ریٹ کے مطابق دیں گےتو اس صورت میں مذکورہ معاملہ شرعا درست نہیں ہے اس لیے کہ اس میں ثمن مجہول ہے۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"ومنها أن يكون المبيع معلوما والثمن معلوما علما يمنع من المنازعة فبيع المجهول جهالة تفضي إليها غير صحيح."
(کتاب البیوع , الباب الأول فی تعریف البیع و رکنه و شرطه وحکمه و أنواعه جلد 3 ص: 3 ط: دارالفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144411101827
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن