ہمارے بھائی نے نرینہ اولاد نہ ہونے کی وجہ سے ہمارا ایک بیٹا گود لیا ہے،اب وہ اس کا برتھ سرٹیفکیٹ اور بے فارم اپنے نام سے بنوانا چاہتے ہیں تاکہ آئندہ کو بچہ ان کی جائیداد میں حصہ لے سکے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا وہ ہمارے بچے کا سرٹیفکیٹ اپنے نام سے بنوا سکتے ہیں؟
واضح رہے کہ شریعت مطہرہ میں لے پالک اور منہ بولے بیٹے کی حیثیت حقیقی اولاد کی طرح نہیں ہے،اور کسی کو منہ بولا بیٹا بنا کر پرورش کرنے سے وہ حقیقی بیٹا نہیں بن جاتا،اور نہ ہی اس پر حقیقی اولاد والے احکام جاری ہوتے ہیں،نہ ہی وہ پرورش کرنے والے کا وارث بن جاتا ہے،البتہ گود لینے والے کو بچے کی پرورش تعلیم وتربیت اور اسے ادب واخلاق سکھانے کا ثواب ملتا ہے،زمانہ جاہلیت میں یہ دستور تھا کہ لوگ لے پالک اور منہ بولے اولاد کو حقیقی اولاد کا ردجہ دیتے تھے،لیکن اسلام نے اس رواج کو ختم کرکے یہ اعلان کیا کہ منہ بولی اولاد حقیقی اولاد نہیں ہے۔
لہذا لے پالک اور منہ بولی اولاد کو ان کے اصل والدین کی طرف منسوب کرنا ضروری ہے،غیر والد کی طرف منسوب کرنا سخت گناہ ہےالبتہ سرپرست کے خانے میں پرورش کرنے والا اپنا نام لکھوا سکتا ہے۔
قرآن کریم میں ہے:
"وَمَا جَعَلَ اَدْعِيَآءَكُمْ اَبْنَآءَكُمْ ۚ ذٰلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِاَفْوَاهِكُمْ ۖ وَاللّـٰهُ يَقُوْلُ الْحَقَّ وَهُوَ يَـهْدِى السَّبِيْلَ،اُدْعُوْهُـمْ لِاٰبَآئِهِـمْ هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّـٰهِ ۚ فَاِنْ لَّمْ تَعْلَمُوٓا اٰبَآءَهُـمْ فَاِخْوَانُكُمْ فِى الدِّيْنِ وَمَوَالِيْكُمْ ۚ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيْمَآ اَخْطَاْتُـمْ بِهٖ وَلٰكِنْ مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوْبُكُمْ ۚ وَكَانَ اللّـٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا."(سورة الاحزاب:4، 5)
ترجمہ:”اور نہ تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا بیٹا بنایا ہے، یہ تمہارے منہ کی بات ہے، اور اللہ سچ فرماتا ہے اور وہی سیدھا راستہ بتاتا ہے،انہیں ان کے اصلی باپوں کے نام سے پکارو اللہ کے ہاں یہی پورا انصاف ہے، سو اگر تمہیں ان کے باپ معلوم نہ ہوں تو تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں، اور تمہیں اس میں بھول چوک ہو جائے تو تم پر کچھ گناہ نہیں لیکن وہ جو تم دل کے ارادہ سے کرو، اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔“
لہذا صورت مسئولہ میں بچے کے تمام کاغذات میں ولدیت کے خانے میں حقیقی والد کا نام لکھنا ضروری ہے،اسی طرح مذکورہ بچہ اپنے پرورش کرنے والے کا شرعاً وارث نہیں بنے گا،البتہ پرورش کرنے والے نے اپنے مال میں سے جو کچھ مذکورہ بچے کو اپنی زندگی میں ملکیتاً قبضہ میں دے دیا تو اس کا مالک بچہ ہوگا،اور پرورش کرنے والے کی وفات کے بعد بچہ کو دیا گیا مال اس کے ترکہ میں شامل ہوکر ورثاء کے درمیان تقسیم نہیں ہوگا۔فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144606101070
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن