بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سرپرست کا نکاح کرانے میں تاخیر کرنا


سوال

میری عمر 23 سال ہے اور میرے والد کا انتقال ہو گیا ہے 17 سال پہلے، اور میرے بڑے بھائی نے ہی میری پرورش کی، لیکن اب وہ میری شادی کرانے میں تاخیر کر رہے ہیں اور بول رہے ہیں 30 سال کے جب ہوجاؤگے تب کرنا شادی، اور میرے لیے کئی رشتے بھی آئے لیکن سب کا انکار کر دیا بھائی نے، اب میں کیا کروں؟

جواب

بچے جب شادی کی عمر کو پہنچ جائیں تو ان کے نکاح کا انتظام کرانا ان کے سرپرستوں  کی ذمہ داری ہے، اس میں معمولی اور غیر اہم امور کی وجہ سے تاخیر کرنا مناسب نہیں، خصوصاً موجودہ ماحول میں جہاں بے راہ روی عام ہے، جلد از جلد اس ذمہ داری کو ادا کردیناچاہیے، ایک حدیث میں آتا  ہے کہ   آں حضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا:

”جب تمہارے پاس ایسا رشتہ آئے  جس کی امانت داری اور اچھےاخلاق سے تم رضامند ہو تو نکاح کردیا کرو؛  اس لیے کہ  اگر تم ایسا نہیں کروگے  تو  زمین میں فساد پیداہوجائے گا“۔

اس لیے اگر لڑکا مہر کی ادائیگی اور شادی کے بعد بیوی کے نان نفقہ کی ادائیگی پر قادر ہے  یا کوئی  اس کا اور اس کی بیوی کا خرچہ اٹھانے کے لیے تیار ہو تو اس کے نکاح میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے، اگر قرائن سے اندازا ہو کہ لڑکا شادی کرنا چاہتا ہے ورنہ گناہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہے اور پھر بھی والدین  یا سرپرست کسی عذر کے بغیر اس کی شادی کرانے میں غیر ضروری تاخیر کریں تو گناہ میں مبتلا ہونے کی صورت میں ان پر بھی اس کا وبال آئے گا۔ حدیث شریف میں ہے:

"وعن أبي سعيد وابن عباس قالا: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من ولد له ولد فليحسن اسمه وأدبه فإذا بلغ فليزوّجه، فإن بلغ ولم يزوّجه فأصاب إثماً فإنما إثمه على أبيه»".

(مشكاة المصابيح (2/ 939)

ترجمہ: جس کے ہاں بچہ پیدا ہو اس کی ذمہ داری ہے کہ اس کا اچھا نام رکھے، بالغ ہونے پر اس کی شادی کرے، اگر شادی نہیں کی اور اولاد نے کوئی گناہ کرلیا تو باپ اس جرم میں شریک ہوگا اور گناہ گار ہوگا۔

جب کہ بڑا بھائی بھی  والد ہی کے درجہ میں ہوتا ہے، اس لیے  اسے اس مسئلہ پر توجہ دینی چاہیے۔

اس سلسلے میں آپ  خاندان کے معزز افراد کے ذریعے بھائی سے   بات کریں، اور انہیں تیار کریں، اور خاندان کے بزرگوں کی شرکت و رضامندی کے ساتھ نیک سیرت رشتہ تلاش کرکے نکاح کرلیں۔

اگر  بڑوں کے سمجھانے سے بھی بھائی آمادہ نہ ہوں اور آپ اپنے سرپرستوں  کی اجازت کے بغیر شادی کر لیں گے تو نکاح تو درست ہو جائے گا، لیکن سرپرست کی شمولیت کے بغیر یا چھپ کر نکاح کرنا معاشرہ میں یہ معیوب سمجھا جاتا ہے، نیز پرسکون اور کامیاب زندگی کے لیے شادی میں  بڑوں  کی رضامندی و شمولیت بھی ضروری ہے؛  اس لیے اس سے حتی الامکان احتراز کی کوشش کریں اور جب تک نکاح  ترتیب نہ بن جائے  اور  گناہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو تو نفلی روزوں کا اہتمام کریں، ہر پیر اور جمعرات کا روزہ رکھنا سنت ہے،  اس میں اجر بھی ہے اور پاک دامنی کا ذریعہ بھی۔  نیز نیک لوگوں کی صحبت میں رہیں، کسی متبع شریعت عالم سے تعلق رکھیں، ان شاء اللہ تعالیٰ گناہوں سے بچنا آسان ہوجائے گا۔اس تمام تفصیل کے باوجود آپ چوں کہ عاقل وبالغ ہیں؛ اس لیے اگر مہر کی ادائیگی اور شادی کے بعد بیوی کی رہائش اور نان نفقے کی ذمہ داری اٹھا سکتے ہیں اور خود اپنا نکاح کرلیتے ہیں تو نکاح جائز ہوگا اور اگر نکاح کے بغیر گناہ میں پڑنے کا یقینی اندیشہ ہو اور آپ کے پاس نکاح کے وسائل بھی ہوں تو پھر فوری نکاح کرنا واجب ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144202201281

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں