بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

رقم دے کر کاروبار کے بغیر اس پر نفع لینا جائز نہیں ہے


سوال

زید نے عمرو سےکاروبار کے لیے ایک لاکھ روپے ليے اور طے یہ پایا کہ ماہانہ ایک لاکھ پہ دس ہزار روپےمنافع عمرو کو دے گا۔ اور زید نے تین سالوں میں ڈیڑھ لاکھ روپے عمرو کو ديے ۔ تین سال کے بعد زید عمروسے کہتا ہے کہ میں نے دھوکے  کے ساتھ آپ سے ایک لاکھ روپے لیے تھے ، میں نے کاروبار کیا ہی  نہیں۔اور جو روپے میں نے آپ کو منافع کی مد میں دیے ہیں وہ میں اپنی طرف سے دیتا رہاہوں ۔ میں نے آپ کے ساتھ دھوکا  کیا ہے؛  لہذا مجھے معاف کردیں ۔ اب جو منافع کی  مد میں ڈیڑھ لاکھ روپے زید نے عمرو کو ديے،  وه سود ہے  یا نہیں؟ عمر کا مطالبہ ہے کہ مجھے ایک لاکھ روپے واپس کیے جائیں ۔ جو زید نے دھوکا  کرکے لیے تھے ۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں زید نے عمرو سے اس بنیاد پر ایک لاکھ روپے لیے کہ اس ایک لاکھ کا ماہانہ دس ہزار منافع دوں گا تو یہ صورت ہی  ناجائز  تھی؛ کیوں کہ کاروبار کےلیے رقم دے کر اس پر نفع حاصل کرنے کے جائز ہونے کے لیے ضروری ہے کہ حاصل ہونے والے نفع کی شرح فیصد طے کی جائے، اگر نفع رقم کی صورت میں متعین کردیا گیا تو یہ سود کے زمرے میں داخل ہے۔

جب یہ معاملہ ابتدا  ہی سے فاسد تھا تو زید پر لازم تھا کہ عمرو کو جلد از جلد اس کی رقم لوٹائے اور اگر واقعتًا  کوئی کاروبار کرنا ہی ہے تو صحیح اور جائز طریقے سے کرے ۔ اب چوں کہ زید عمرو کو  (کاروبار کیے بغیر) ڈیڑھ لاکھ روپے ادا کرچکا ہے تو عمرو کے ذمے  لازم ہے کہ اُس ڈیڑھ لاکھ میں سے اپنے ایک لاکھ مہنا کرکے پچاس ہزار روپے زید کو لوٹائے؛ اس رقم کو استعمال کرنا عمرو کے لیے جائز نہیں ہے ، نیز اس کا زید سے یہ مطالبہ بھی جائز نہیں ہے کہ میری رقم مجھے دی جائے؛ کیوں کہ وہ پہلے ہی ڈیڑھ لاکھ روپے لے چکا ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ سے اس غلط معاملہ پر توبہ و استغار کرے اور آئندہ کوئی بھی کاروباری لین دین کرنے سے پہلے اہلِ حق علماء کرام سے صحیح طریقہ کار معلوم کرکے کوئی بھی معاملہ کرے ۔

حدیث شریف میں ہے :

"عن فضالة بن عبيد صاحب النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: كل قرض جر منفعة فهو وجه من وجوه الربا".

(أخرجه البيهقي في الكبرى في باب كل قرض جر منفعة فهو ربا، (5/ 571) برقم (10933)، ط. دار الكتب العلمية، بيروت، الطبعة: الثالثة، 1424 هـ = 2003م.)

الدر المختار میں ہے:

"وفي الأشباه كلّ قرض جرّ نفعًا حرام."

(كتاب البيوع، فصل في القرض (5/ 166)،ط.  دار الفكرسنة النشر 1386)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5 / 648):

" (وكون الربح بينهما شائعاً) فلو عين قدراً فسدت".

الفتاوى الهندية (2 / 302):

" وأن يكون الربح معلوم القدر، فإن كان مجهولاً تفسد الشركة وأن يكون الربح جزءاً شائعاً في الجملة لا معيناً، فإن عينا عشرةً أو مائةً أو نحو ذلك كانت الشركة فاسدةً، كذا في البدائع".

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144207200031

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں