میں نے ایک دوست کے پاس 10 لاکھ روپے لگائے ہیں جس پر مجھے ماہانہ منافع ملتے ہیں۔ مجھے اس رقم پر بھی زکاۃ دینی ہوگی یا صرف منافع پر؟کیوں کہ مجھے اپنی رقم نکالنے پر فوراً نہیں ملے گی، بلکہ کچھ عرصہ بعد ملے گی؟
واضح رہے کہ اگر کسی کے کاروبار پر اس شرط کے ساتھ سرمایہ کاری کی ہو کہ متعین رقم نفع کے طور پر ملے یا کل سرمائے کا متعین فیصد نفع ملے تو یہ صورت سود کی ہے، ایسا معاملہ ختم کرنا لازم ہے۔ اس صورت میں صرف اپنے سرمایہ پر زکاۃ لازم ہوگی۔
اور اگر کاروبار میں اس شرط پر سرمایہ کاری کی ہو کہ نفع میں سے متعین فیصد سرمایہ کار کو ملے گا تو یہ صورت جائز ہے۔ اس صورت میں زکاۃ کا سال پورے ہونے کے وقت سرمایہ کی قیمت اور نفع میں سے جو ضرورت سے زائد رقم موجود ہو، اس کے مجموعہ پر زکاۃ ادا کرنا لازم ہوگی، اگرچہ انویسٹ کی گئی کل رقم فورًا نہیں ملے گی، لیکن یہ رقم آپ کی ملکیت ہے، لہٰذا اس کی زکات بھی آپ پر ہی ہوگی۔
صورت مسئولہ میں درج بالا صورتوں میں سے جس شرط پر سرمایہ کاری کی ہو، اس کے مطابق سائل عمل کرلے۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"(ومنها) : أن يكون الربح جزءًا شائعًا في الجملة، لا معينًا، فإن عينا عشرةً، أو مائةً، أو نحو ذلك كانت الشركة فاسدةً؛ لأن العقد يقتضي تحقق الشركة في الربح والتعيين يقطع الشركة لجواز أن لايحصل من الربح إلا القدر المعين لأحدهما، فلايتحقق الشركة في الربح".
(6/ 59، کتاب الشرکة، فصل في بيان شرائط جواز أنواع الشركة، ط: سعید)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144203200201
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن