بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سرمایہ کاروں کی رقم اجازت کے بغیر قرض دینا


سوال

دوساتھی  زید اور  خالد  ایک دفتر میں 2005ءسے پراپرٹی ڈیٹنگ کا مشتر کہ کا روبار منافع میں برابری کی بنیادپر چلارہے ہیں، بعض سرمایہ کاروں کا سرمایہ بھی ان کے پاس پڑا رہتا ہے جس سے جائیداد کی خرید وفروخت کرتے ہیں۔

زید نے 2017ء میں اسلام آباد میں ایک شخص  بکر کے ساتھ بھی ذاتی  طور پر کاروبار میں شرکت کی۔

2018ء میں بکر زید کے پاس پشاور دفتر میں آیا اور  خالد اور  زید سے کہا کہ FBR نے میرے اکاونٹ منجمد  کیے ہیں۔ اکاؤنٹ کھلوانے کے  لیے حکومت کے پاس دو کروڑ روپے جمع کروانے ہیں،  مجھے دو دن کے  لیے دو کروڑ روپے دے دو،  اکاؤنٹ کھلوا کر فورا واپس کر دوں گا۔

زید نے کہا اتنی رقم نہیں ہے، اگلے دن  بکر اصرار کے ساتھ مطالبہ کرتے ہوئے بیٹھا،  مگر اسے  وہی جواب ملا، تیسرے دن پھر  بکر نے مطالبہ کیا تو  خالد نے کہا کہ ہمارے پا س اگر کچھ رقم ہے تو یہ سرمایہ کاروں کی بات ہوتی ہے،  بکر نے کہا کہ مجھے بس دو دن کے  لیے دے دیں،  اکاؤنٹ کھلوا کر فوری واپس کر دوں گا، اس سے قبل  بکر کے ساتھ  خالد کا کوئی تعلق نہیں تھاصرف زبانی  بکر کے بارے میں سنا تھا،  اس لیے خالد  نے  زید کو دفتر سے باہر لا کر کہا کہ یہ شخص بہت رقم مانگ رہا ہے،  مگر میں جانتا نہیں  یہ کیسا آدمی ہے؟

زید نے کہا کہ 120% نیک آدمی ہے۔  بکر مسلسل اصرار کرتا  رہا ؛ اس لیے آخر کار  خالد نے کہا کہ ٹھیک ہے،  لیکن  زید سے کہا: اس سے ایک کاغذ پر لکھوالو، اسی دوران  بکر نے کہا کہ میں آپ کو اس  پر منافع دے دوں گا، مگر  خالد نے کہا کہ ہمیں سود نہیں چاہیے ،یہ لوگوں کی امانت ہے، اپناکام چلا کر واپس کردو،  بکر رقم لے کر چلا گیا اور فون بند کر دیا معلوم ہوا کہ  بکر دین دار شخص کے حلیہ میں ایک دھوکے  باز ہے۔

اب  خالد کہتا ہے کہ ان دو کروڑ روپے کا  ذمہ دار صرف  زید ہے؛ کیوں کہ یہ دھو کے  باز صرف  زید کا واقف کار  تھا۔ جب کہ  زید کہتا ہے کہ صرف میں ذمہ دار نہیں ہوں؛  کیوں کہ ہم دونوں شرکاء نے باہم مشاورت کے ساتھ یہ رقم دی ہے ، یہی وجہ ہے کہ جب تک  خالد نے مجھ  سے مشورہ کر کے رقم دینے کی اجازت نہیں دی تھی تو میں انکار کر تار ہا، نیز  خالد نے بھی مجھ سے کہا کہ  بکر سے ایک کاغذ پر اس قرض کی تحریر کر وادو،  نیز  خالد نے  بکر سے کہا کہ ہمیں سود نہیں چاہیے،  بلکہ لوگوں کی امانت ہے کام چلا کر واپس کر دو، نیز اگر صرف اپنی ذمہ داری پر دینا ہوتا تو دو دن تک انکار نہ کر تا،  بلکہ  پہلے دن مطالبہ کرنے کے بعد ہی دے دیتا۔

اس معاملہ میں آپ حضرات رہنمائی فرمائیں!

جواب

مذکورہ دونوں افراد  کے پاس سرمایہ کاروں کی جانب سے فراہم کردہ سرمایہ  کے علاوہ اپنا ذاتی کوئی سرمایہ  اگر نہیں تھا تو  اس صورت میں ان دونوں کی حیثیت مضارب کی  ہوگی، مضارب کی پاس انویسٹرز ( رب المال) کا جو سرمایہ ( رأس المال ) ہوتا ہے، اس میں ذاتی نوعیت کے تصرف کا اسے اختیار نہیں ہوتا، پس اگر وہ انویسٹر ز سے کردہ  معاہدہ کے خلاف کوئی تصرف کرتا ہے تو اس صورت میں مضارب شرعًا ضامن ہوتا ہے، لہذا صورتِ  مسئولہ میں   چوں کہ دو روز کے  لیے قرضہ دینے کا اقدام دونوں افراد نے باہمی مشورہ و لکھت پڑھت کے بعد کیا تھا، لہذا دونوں ہی اس رقم کے شرعًا  ضامن ہوں گے،  کسی ایک کا دوسرے کو ضامن قرار دینا شرعًا درست نہیں۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(و أما) (حكمها) فإنه أولا أمين و عند الشروع في العمل وكيل و إذا ربح فهو شريك و إذا فسدت فهو أجير و إذا خالف فهو غاصب و إن أذن بعده و لو شرط الربح لرب المال كان بضاعة و لو شرط كله للمضارب كان قرضًا، هكذا في الكافي."

( كتاب المضاربة، الباب الأول في تفسير المضاربة و ركنها و شرائطها و حكمها، ٤ / ٢٨٨، ط: دار الفكر)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212200284

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں