بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

سرمایہ کاری میں کاروبار کے حلال یا حرام ہونے میں شک و شبہ ہونے کی صورت میں سرمایہ کاری کا حکم


سوال

زید نے تین بندوں سے بطور مضاربت تیس لاکھ روپے لے کر آگے کسی کے پاس کاروبار کے لیے لگائے،ان پیسوں پر جو نفع آتا رہا،اس  میں فیصد مقرر کر کے کچھ زید لیتا رہا اور کچھ ان لوگوں کو دیتا رہا، جن کے پیسے زید نے لگائے تھے،کچھ عرصہ بعد  ایسے شکوک و شبہات ہونے لگے  کہ زید نے جس کے پاس کاروبار میں پیسے لگائے  ہیں، وہ حلال نہیں ہے،لیکن حتمی طور یہ پتہ بھی نہیں ہے کہ وہ حرام ہے۔اب معلوم یہ کرنا ہے کہ کیاآنے والا نفع حلال ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں زید نے جس شخص کے پاس  پیسے لگائےہیں،اس کے کاروبارکے بارے میں تحقیق لازم ہے، اگر اس کے کاروبار کا حرام ہونا ثابت ہوجائے تو اس کاروبار سے حاصل ہونے والا نفع بھی حرام ہوگا اور اصل کاروبار  حلال ہونے کی صورت میں نفع بھی حلال ہوگا،زیر نظر مسئلہ میں اگر تحقیق کے بعد کاروبار کا حلال ہونا واضح ہوجائے تو نفع کا استعمال کرنا جائز اور درست ہے  اور اس کے بعد بلا وجہ شک وشبہ میں مبتلاء ہونا بھی درست نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"دفع ‌ماله ‌مضاربة لرجل جاهل جاز أخذ ربحه ما لم يعلم أنه اكتسب الحرام

(قوله جاز أخذ ربحه) لأن الظاهر أنه اكتسب من الحلال."

(كتاب البيوع،باب المتفرقات من أبوابها،مطلب إذا اكتسب حراما ثم اشترى فهو على خمسة أوجه،5/ 235،ط:سعید)

مشكاة المصابيح میں ہے:

"عن عبد الله بن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «طلب ‌كسب ‌الحلال فريضة بعد الفريضة» . رواه البيهقي في شعب الإيمان."

(کتاب البیوع،باب الكسب وطلب الحلال،2/ 847،ط:المكتب الإسلامي)

المحيط البرهانی میں ہے:

"أن جواز ‌البيع ‌يدور ‌مع ‌حل الانتفاع، ولا يحل الانتفاع بهذه الأشياء، فلا يجوز بيعها."

(كتاب البيع،الفصل السادس: فيما يجوز وما لا يجوز بيعه،6/ 349،ط: دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100692

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں