بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سرمایہ کاری میں متعین نفع دینا


سوال

 ایک کمپنی کا کاروبار اس طرح ہے یعنی وہ  100روپیہ لیتی ہے اور دس دنوں کےبعد 130روپیہ واپس کرتی ہے ۔ اور وہ لوگوں کے پیسہ کو سرمایہ داروں کو دیتی ہے اور ان سے متعین مدت کا منافع لے کر اپنے یوزر میں تقسیم کر دیتی ہے ۔ کیا یہ جائز ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ کاروبار میں رقم لگاکر نفع کو متعین کردینا مثلاً یہ کہناکہ ہر مہینے یا اتنی مدت بعد مجھے نفع کے طور پر اتنی رقم دی جائے، یا انویسمنٹ کا اتنا فیصد دیا جائے یہ طریقہ درست نہیں ہے۔ اسی طرح اپنے آپ کو نقصان میں شریک نہ کرنا یہ بھی درست نہیں۔

لہٰذا صورت مسئولہ میں جس کاروبار میں 100 روپے سرمایہ کاری کرنے پہ دس دن بعد 30 روپے نفع کے ساتھ یہ رقم واپس مل جاتی ہے، یہ طریقہ کار شرعاً درست نہیں ۔ اور جو کمپنی اس طریقہ کار پہ کام کرتی ہو اس میں سرمایہ کاری کرنا بھی جائز نہیں ہوگا۔

بلکہ اس کا جائز طریقہ کار یہ ہے کہ کاروبار میں نفع کی تعیین فیصد، حصص کے اعتبار سے کی جائے ،مثلاً نفع دونوں کے درمیان آدھا آدھا ہوگا، یا کسی ایک فریق کے لیے ساٹھ فیصد اور دوسرے کے لیے چالیس فیصد یادونوں کے سرمایہ کے تناسب سے نفع تقسیم کیاجائے

نیز یہ بھی واضح رہے کہ  جس کاروبار میں سرمایہ کاری کی جا رہی ہو اس سرمایہ کاری کے حلال ہونے کے لئے اس کاروبار کا حلال ہونا بھی ضروری ہے ۔

اسی طرح  یہ بھی ملحوظ رہے کہ جس کمپنی کو لوگ روپے مضاربت (سرمایہ کاری)  کے طور پر دے رہے ہوں وہ یہ رقم آگے  مضاربت پر تو دے سکتی ہے، البتہ شراکت داری(اس طور پر کہ کاروبار کرنے والا کا اپنا پیسہ بھی کاروبار میں لگا ہو) پر  اس وقت تک نہیں دے سکتے جب تک کہ پیسے دینے والے  کی طرف سے صراحتاً اس کی اجازت نہ ہو۔

ہندیہ میں ہے:

"ونوع لا يملكه بمطلق العقد ويملكه إذا قيل له اعمل برأيك وهو ما يحتمل أن يلتحق به فيلحق به عند وجود الدلالة وذلك مثل دفع المال مضاربة أو شركة إلى غيره وخلط المضاربة بماله أو بمال غيره."

(الفتاوى الهندية ،كتاب المضاربة، الباب الرابع فيما يملك المضارب من التصرفات وما لا يملك،4 / 292، الناشر: دار الفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ضارب المضارب) آخر (بلا إذن) المالك (لم يضمن بالدفع ما لم يعمل الثاني ........ (فإن أذن) المالك (بالدفع ودفع بالثلث وقد قيل) للأول (ما رزق الله فبيننا نصفان فللمالك النصف) عملا بشرطه (وللأول السدس الباقي وللثاني الثلث) المشروط

(قوله فإن أذن) مفهوم قوله: بلا إذن."

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)، باب المضارب يضارب، كتاب المضاربة، 5 / 652، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402101712

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں