بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سرمایہ کار کا نفع یا نقصان ہرصورت میں اپنا سرمایہ پورا واپس لینے کی شرط لگانا


سوال

 میرا ایک چھو ٹا سا سوال ہے میں اس مسئلے کی وجہ سے بہت پر یشا ن ہو ں کہ کیا میں سو د تو نہیں کھا رہا،میر ے علا قے میں لو گ جا نوروں کا کاروبار کرتے ہیں ان کو میں نے کاروبار کےلیے 5 لاکھ روپیہ دیا ہوا ہے۔اور جب وہ اس پیسے سے جانوروں کی خر یدوفروخت کرتے ہیں اور ان کو نفع پہنچتاہے تو وہ لوگ 2حصے خود ر کھتے ہیں اور تیسرا حصہ مجھے دیتے ہیں اور ایک بات ان سے مقررہے کہ کا روبار میں نفع ہو یا نقصان، میں 5لاکھ پورے لینے کا پابند ہوں گا اور ان پیسوں سے لیا ہوا جانور مر جائے تو اس کے ذمہ دار وہ خود ہیں مگر میرے 5لاکھ پورے دینے ہوں گے۔اب اس بات کی مجھے سمجھ نہیں آتی کہ یہ کاروبار سود ہےکہ نہیں؟

جواب

مذکورہ کاروبار میں سرمایہ کاری کرتے ہوئے آپ نے جو شرط عائد کی تھی کہ ’’میں نقصان کا ذمہ دار نہیں ہوں گا اور مجھے میرا مکمل سرمایہ واپس کیا جائے گا‘‘ شرط فاسد ہے، ایسی شرط عائد کرنا جائز نہیں ہے،شرعی اعتبار سے نفع کے ساتھ ساتھ ممکنہ نقصان میں بھی شراکت ضروری ہے، چونکہ یہ شرط، شرط فاسد ہے اس لیے معاہدے سے اسے ختم کرنا ضروری ہے، نقصان کی صورت میں  آپ  اپنے سرمایہ کے بقدر نقصان کے ذمہ دار ہوں گے البتہ اس شرط  کی وجہ سے شراکت باطل نہیں ہے۔

المحيط البرهاني في الفقه النعماني  میں ہے:

" وإن شرط الوضيعة والربح نصفان، فشرط الوضيعة نصفان فاسد؛ لأن الوضيعة هلاك جزء من المال، فكأن صاحب الألفين شرط ضمان شيء مما هلك من ماله على صاحبه، وشرط الضمان على الأخر فاسد، ولكن بهذا لا تبطل الشركة حتى لو عملا وربحا، فالربح بينهما على ما شرطا، فالشركة مما لا تبطل بالشروط الفاسدة."

( كتاب الشركة، الفصل الرابع في العنان، 6 / 33، ط: دار الكتب العلمية)

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"ولنا قوله - عليه الصلاة والسلام - «الربح على ما شرطا والوضيعة على قدر المالين» ولأن الربح يستحق بأحد ثلاثة أمور بالمال والعمل والضمان وقد وجد العمل هنا فوجب أن يستحق المشروط به كالمضارب فإنه يستحقه بالعمل والأستاذ الذي يتقبل الأعمال بالضمان وغيرهما بالمال ولأن الحاجة مست إلى اشتراط التفاضل لأن أحدهما قد يكون أهدى وأحذق في التجارة ولا يرضى بالمساواة فوجب القول بجوازه كي لا تتعطل مصالحهم بخلاف اشتراط جميع الربح لأنه يخرج به عن الشركة والمضاربة إلى القرض أو البضاعة وبخلاف الوضيعة لأنه أمين فلا يجوز اشتراط الضمان عليه لأن الأمانة تنافيه كالوديعة وغيره ولا ينافي استحقاق الزيادة من الربح بعمله بشرط أن يكون عمله مثل عمل شريكه أو أكثر لما ذكرنا ولأنه يشبه المضاربة من حيث إنه يعمل بمال غيره ويشبه الشركة من حيث الاسم ووجود العمل والمال منهما فقلنا جاز اشتراط الزيادة اعتبارا بالمضاربة ولا تبطل باشتراط العمل عليهما اعتبارا بالشركة يحققه أن كلا منهما يعمل في مال صاحبه وفي مال نفسه وعمله في مال صاحبه بأجرة فيستحق المسمى فيه كالمضاربة."

( كتاب الشركة، 3 / 318، ط: المطبعة الكبرى الأميرية - بولاق، القاهرة)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"اشترکا فجاء أحدهما بألف والآخر بألفین علی أن الربح والوضیعة نصفان، فالعقد جائز، والشرط في حق الوضیعة باطل، فإن عملا وربحا، فالربح علی ما شرطا، وإن خسرا فالخسران علی قدر رأس في مالهما."

(کتاب الشرکة، الباب الثالث ، الفصل الثاني، 2 / 320، ط: رشيدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310101216

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں