بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سرکاری زمین پر مسجد بننے کے بعد دوسری جگہ منتقل کرنے کا حکم


سوال

گورنمنٹ کے ایک سیکورٹی ادارے نے 1955 میں زمین دوسرے سیکورٹی ادارے کو عارضی طور پر اپنے ملازمین کی رہائش کے لیے دی، جو کہ 2020 میں واپس لے لی گئی۔ گورنمنٹ کی یہ زمین صرف رہائشی مقصد کے لیے مختص تھی۔ اس دوسرے سیکورٹی ادارے نے وہاں رہائشی کوارٹرز بنانے کے ساتھ ساتھ اپنے ملازمین کی ضرورت کے پیش نظر پہلے سیکورٹی ادارے کی اجازت کے بغیر ایک مسجد بھی تعمیر کر دی۔ جس جگہ مسجد کی تعمیر کی گئی اس جگہ کو دراصل پہلے سیکورٹی ادارے کے نقشے میں ملازمین کی رہائش کے لیے مختص کیا گیا تھا۔

مندرجہ بالا سیاق و سباق کے پیش نظر مندرجہ ذیل سوالات کے شرعی جوابات مطلوب ہیں:

1۔ پہلے سیکورٹی ادارے کی قانونی اجازت کے بغیر بنائی گئی مسجد کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

2۔ اگر مذکورہ بالا مسجد کو شرعی مسجد کی حیثیت حاصل ہے توایسی مسجد کو پہلا سیکورٹی ادارہ اپنے پلان کے مطابق رہائشی کوارٹرز بنانے کے لیے شہید کر کے اس سے بہتر اور وسیع جگہ پر منتقل کر سکتا ہے؟

ازراہ کرم مندرجہ بالا سوالات کے جوابات دے کر عند اللہ ماجورہوں!

جواب

صورتِ  مسئولہ  میں گورنمنٹ کے ایک سیکورٹی ادارے نے 1955 میں زمین دوسرے  سیکورٹی ادارے کو عارضی طور پر اپنے ملازمین کی رہائش کے لیے دی ، جو 2020 میں واپس لی گئی ،اور گورنمنٹ کی یہ زمین صرف رہائشی مقصد کے لیے مختص تھی ، اور دوسرے سیکورٹی  ادارے نے رہائش کوارٹر بنانے کے ساتھ ساتھ  اپنے ملازمین کی ضرورت کے پیش نظر مسجد بنائی ہے، اگر یہ مسجد حکومت کی اجازت کے بغیر بنائی  گئی ، یا بنانے کے بعد حکومت سے اجازت   حاصل نہیں کی گئی تو یہ شرعی مسجد کے حکم میں نہیں  ہوگی اور اس کو شہید کرکے اس سے بہتر اور وسیع جگہ پر منتقل کرنا جائز ہوگا، اور اگر حکومت سے اجازت لے کر بنائی گئی  ہو یا بنانے کے بعد حکومت سے   اجازت  حاصل کی گئی   پھر یہ شرعی مسجد ہے ، اس کو باقی رکھنا ضروری ہے اس کو شہید کرکے اس سے بہتر اور وسیع  جگہ منتقل کرنا جائز نہیں ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"‌بنى ‌مسجدا في أرض غصب لا بأس بالصلاة فيه. وفي الواقعات ‌بنى ‌مسجدا على سور المدينة لا ينبغي أن يصلي فيه؛ لأنه من حق العامة فلم يخلص لله تعالى كالمبني في أرض مغصوبة اهـ ثم قال: ومدرسة السليمانية في دمشق مبنية في أرض المرجة التي وقفها السلطان نور الدين الشهيد على أبناء السبيل بشهادة عامة أهل دمشق والوقف يثبت بالشهرة، فتلك المدرسة خولف في بنائها شرط وقف الأرض الذي هو كنص الشارع، فالصلاة فيها مكروهة تحريما في قول، وغير صحيحة له في قول آخر كما نقله في جامع الفتاوى."

(كتاب الصلوة،  مطلب في الصلوة  في الارض المغصوبة، ج:1، ص:381، ط:سعيد)

وفیہ ایضاً:

"‌(قوله: وشرطه شرط سائر التبرعات) أفاد أن الواقف لا بد أن يكون مالكه وقت الوقف ملكا باتا ولو بسبب فاسد، وأن لا يكون لو ‌وقف ‌الغاصب ‌المغصوب لم يصح، وإن ملكه بعد بشراء أو صلح، ولو أجاز المالك وقف فضولي جاز وصح وقف ما شراه فاسدا بعد القبض وعليه القيمة للبائع وكالشراء الهبة الفاسدة بعد القبض."

(كتاب الوقف، مطلب قد يثبت الوقف بالضرورة، ج:4، ص:341، ط:سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"‌ويتفرع على اشتراط الملك أنه لا ‌يجوز ‌وقف الإقطاعات إلا إذا كانت الأرض مواتا أو كانت ملكا للإمام فأقطعها الإمام رجلا وأنه ‌لا ‌يجوز ‌وقف أرض الحوز للإمام؛ لأنه ليس بمالك لها."

(كتاب الوقف، الباب الأول في تعريف الوقف وركنه وسببه..، ج:2، ص:354، ط:دارالفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144408101563

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں