بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سرکاری زمین پر قبضہ کرکے رہائش اختیار کرنا اور اسے فروخت کرنے کا حکم


سوال

پنجاب کے اکثر علاقوں میں گاؤں کے ایک طرف صرف گاؤں کے لوگوں کے جانوروں کے لئے چارہ اگانے کے لئے حکومت نے کچھ جگہ مختص کی ہوتی تھی، وہ جگہ حکومت کی ملکیت میں رہتی تھی لیکن چارہ بیجنے کے لیے ایک سال کے معاہدے کے تحت وہ گاؤں کے کسی شخص کو دے دی جاتی تھی،پاکستان بننے کے بعد کچھ عرصے تک تو یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا ، پھر اس کے بعد گاؤں کے کچھ بااثر لوگوں نے اس جگہ پر قبضہ کر کے اپنے رہائشی گھر اور  اپنا ذاتی کاروبار شروع کر لیے اور اس جگہ کو اپنے نام سے مختص کر لیا، حکومت کے ریکارڈ میں آج بھی وہ جگہ حکومت کے نام ہے اور کسی شخص کے نام منتقل نہیں ہوئی ہے۔ قبضہ کرنے والوں کی اب دوسری یا تیسری نسل وہاں پر آباد ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا ایسی جگہ پر گھر بنا کر رہائش اختیار کرنا یا کاروبار کرنا جائز ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ سرکاری زمین میں  حکومت  کی اجازت کے بغیر  گھر بناکر  رہائش اختیار کرنایا اسے فروخت کرکےکاروبار کرنا یا  اسے ذاتی تصرف میں لینا درست نہیں ہے۔

صورتِ مسئولہ میں جن لوگوں نے حکومت کی زمین پر قبضہ کرکے اس میں رہائش اختیار کی ہےیا اس زمین پر کوئی کاروبار شروع کیا ہے،تو ان کا یہ عمل شرعاً ناجائز ہے،اس زمین کو یاتو گورنمنٹ سے باقاعدہ رقم ادا کرکے خرید لیاجائےیا گاؤں والوں کو بھی بطورِ چراگاہ استعمال کی اجازت دی جائے۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن أبي حميد الساعدي رضي الله عنه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : لا يحل لامرئ أن يأخذ مال أخيه بغير حقه و ذالك لما حرم الله مال المسلم على المسلم."

(مسند احمد ابب حنبل ،ج: 39، ص: 18، رقم الحديث: 23605 ،ط: مؤسسة الرسالة)

حدیث پاک میں ہے:

"عن سعيد بن زيد ابن عمرو بن نفيل : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال"من ‌اقتطع ‌شبرا من الأرض ظلما، طوقه الله إياه يوم القيامة من سبع أرضين."

(كتاب المساقاة،باب تحريم الظلم و غصب الأرض و غيرها،ج؛3، ص:1230،رقم الحديث: 1610،ط: دار إحياء التراث العربي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402100149

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں