بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 جمادى الاخرى 1446ھ 13 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

سرکاری زمین پر بنے ہوئے مصلے میں Precast کی دیواریں اور چھتیں بنانے کا حکم


سوال

عرض یہ ہے کہ ہائی وے کے ساتھ خانہ بدوش احباب کی قطار میں طویل آبادی ہے، جو کہ عام طور پر جھونپڑیوں پر مشتمل ہے، واضح رہے کہ یہ جگہ جن پر گزشتہ بیس سے پچیس سالوں سے یہ احباب رہتے ہیں جو کہ NHA (نیشنل ہائی وے اتھارٹی ) کی ملکیت ہے، اسی آبادی میں مسلمان ہونے والے احباب نے چٹائیوں سے اپنے لیے ایک مصلی بنایا ہے،تاہم اس میں بارش کا پانی اور کتے وغیرہ داخل ہوجاتے ہیں، جس کی وجہ سے ارادہ بنا کہ مذکورہ مصلی کی جگہ  Precast  کی دیواریں اور چھت بنائی جائے، تاکہ مقامی حضرات سہولت سے نماز پڑھ سکیں اور مدرسہ چلا سکیں۔

واضح رہے کہ اس جگہ پر کسی قسم کے قبضہ کا کوئی ارادہ نہیں ہے، جب حکومت باقی آبادی ختم کرے یا اس سے پہلے پہلے نماز کی جگہ ختم کرنا چاہےتو بے شک ختم کرے، اس کام کا مقصدصرف  یہ ہے کہ سہولت کے ساتھ لوگ عبادت کر سکیں۔

آپ حضرات شریعت کی روشنی میں راہ نمائی فرمائے کہ ہمارے لیے اس مصلی پر Precast کے ذریعے چھت اور دیواریں تعمیر کرنا جائز ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر حکومتی ادارہ NHA (نیشنل ہائی وے اتھارٹی) کی طرف سےPrecast کی چھت اور دیواریں بنانے میں  کوئی رکاوٹ نہ ہو اورعام لوگوں کی ضرورت پوری کرنے کے لیے پہلے سے مصلی بھی موجود ہو،  لیکن  مصلی بارش اور کتوں کے داخل ہونے سے محفوظ نہ ہو تو عام لوگوں کے فائدے اور مصلی کی حفاظت کی خاطر اس پر Precast کی دیواریں اور چھت بنانے میں کوئی حرج نہیں۔

سنن ابی داؤد میں ہے:

"عن عمر بن الخطاب، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «‌من ‌بنى ‌مسجدا يذكر فيه اسم الله، بنى الله له بيتا في الجنة»."

(كتاب المساجد والجماعات، باب من بنى لله مسجدا، ج: 1، ص: 243، ط: دار إحياء الكتب العربية)

فتاوی  شامی میں ہے :

"جعل شيء أي: جعل الباني شیئًا من الطریق مسجدًا لضیقه ولم یضر بالمارین جاز لأنهما للمسلمین ... قوله: ”لضیقه ولم یضر بالمارین“ أفاد أن الجواز مقید بهذین الشرطین."

(كتاب الوقف، مطلب في الوقف إذا خرب ولم يمكن عمارته، ج: 4، ص: 377، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144601100004

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں