بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

سرکاری زمین پر مسجد بنانا اور اسے گرانا


سوال

کیا سرکاری زمین پر مسجد بنائی جا سکتی ہے؟ اور کیا سرکاری ملازمین اسے گرا سکتے ہیں؟

جواب

اگر کسی علاقے میں مسجد کی ضرورت ہو اور اہلِ علاقہ کسی خالی سرکاری زمین پر مسجد تعمیر کریں اور اس میں کئی سال تک باقاعدہ پنج وقتہ نماز یں و جمعہ ادا کی جاتی رہیں اور اتنے سالوں تک حکومت کی طرف سے ان مساجد کے قیام و تعمیر پر کوئی اعتراض بھی نہیں کیا گیا تو ایسی تمام مساجد   مسجدِ شرعی کا  حکم رکھتی ہیں، اور وہ مقامات تا قیامت مسجد کے حکم میں ہیں، ان کو گرانا یا ان کی جگہوں پر مسجد کے علاوہ کوئی اور  عمارت بنانا شرعاً جائز نہیں۔

البتہ ایسے مواقع پر اہلِ علاقہ کو چاہیے کہ پہلے حکومت کو درخواست دیں کہ وہ علاقے کی دیگر بنیادی ضروریات کے انتظام کی طرح مسلمانوں کی سب سے اہم اور بنیادی ضرورت مسجد کی تعمیر کرے، ورنہ کم از کم اس کے لیے جگہ فراہم کرے،  اگر انتظامیہ کی طرف سے اس سلسلے میں تعاون نہ ہو تو پھر زیادہ بہتر یہ ہے کہ کوئی صاحبِ خیر زمین خرید کر مسجد کے لیے وقف کردے، ورنہ کسی خالی سرکاری زمین پر مسجد تعمیر کی جاسکتی ہے۔

البحر الرائق میں ہے:

"أشار بإطلاق قوله: و يأذن للناس في الصلاة أنه لايشترط أن يقول: أذنت فيه بالصلاة جماعة أبداً، بل الإطلاق كاف ... و قد رأينا ببخارى و غيرها في دور سكك في أزقة غير نافذة من غير شك الأئمة و العوام في كونها مساجد ... بني في فنائه في الرستاق دكاناً لأجل الصلاة يصلون فيه بجماعة كل وقت فله حكم المسجد".

(كتاب الوقف، فصل في أحكام المساجد، ٥/ ٢٤١ - ٢٥٠، ط: رشيدية)

تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:

"( ولو خرب ما حوله و استغني عنه يبقي مسجداً عند الإمام و الثاني) أبداً إلى قيام الساعة (و به يفتي)، حاوي القدسي".

(شامي، كتاب الوقف، مطلب في وجوب المسجد و غيره، ٤/ ٣٥٨، ط: سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

"و إن بني للمسلمين كمسجد و نحوه... لاينقض". (٦/ ٥٩٣، ط: سعيد)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144204200506

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں