1-میرا سوال یہ ہے کہ ہمارے ہاں حکومتی اداروں کے احاطوں میں مساجد بنی ہوئی ہیں ،جن میں اسی ادارے کے لوگ نماز پڑھتے ہیں، تو کیا یہ مساجد مسجدِ شرعی کے حکم میں ہیں یا نہیں؟
2-کوئی مسجد مسجد شرعی کب بنتی ہے؟ یہاں کچھ علماء کا کہنا ہے، کہ جب تک اذن عام نہ ہو تب تک یہ صرف مصلیٰ ہیں ،مسجدِ شرعی نہیں ہیں، ان کا یہ کہنا شرعاً کیسا ہے؟
3-حکومتی اداروں میں موجود مساجد کے مسجد بننے میں کس کی نیت کا اعتبار ہوگا؟ کون ان کو مسجد بنا سکتا ہے؟ یہ اختیار کس کو ہے؟
1۔ حکومت یا حکومت کی طرف سے مجاز انتظامیہ یا افسر نے مسجد کے لیے جگہ متعین کر کے اس میں مسجد تعمیر کر دی ہو تو وہ مسجد شرعی ہے۔
2۔ مسجد کے شرعی مسجد ہونے کے لیے اذن عام کا ہونا ضروری نہیں ہے۔
3۔ سرکاری زمین پر مسجد بنانے میں حکومت یا حکومت کی طرف سے مجاز اتھارٹی کے عمل کا اعتبار ہوگا۔یہ حکم جدید مساجد کےلیے ہے ۔اگر کوئی مسجد جو بن چکی ہو اور اس کی شرعی حیثیت کا تعین مطلوب ہو تو تفصیل ذکر کرکے جواب حاصل کیا جاسکتا ہے۔
ردالمحتار میں ہے:
"(ويزول ملكه عن المسجد والمصلى) بالفعل و (بقوله جعلته مسجدا) عند الثاني (وشرط محمد) والإمام (الصلاة فيه)."
(کتاب الوقف، مطلب سكن دارا ثم ظهر أنها وقف، ج: 4 ص: 356 ط: سعید)
وأیضاً فیہ:
"(قوله: ورابعها فمصرفه جهات إلخ) موافق لما نقله ابن الضياء في شرح الغزنوية عن البزدوي من أنه يصرف إلى المرضى والزمنى واللقيط وعمارة القناطر والرباطات والثغور والمساجد وما أشبه ذلك. اهـ."
(رد المحتار، کتاب الزکوٰۃ، باب العشر، فروع في زكاة العشر، ج: 2 ص: 338 ط: سعید)
البحر الرائق میں ہے:
"أشار بإطلاق قوله: و يأذن للناس في الصلاة أنه لايشترط أن يقول: أذنت فيه بالصلاة جماعة أبداً، بل الإطلاق كاف لكن لو قال صلوا فيه جماعة صلاة أو صلاتين يوما أو شهرا لا يكون مسجدا كما صرح به في الذخيرة ... في الرستاق دكاناً لأجل الصلاة غير نافذة من غير شك الأئمة و العوام في كونها مساجد ... ويضمن القيم ما أنفق فيه من مال المسجد بنى في فنائه في الرستاق دكاناً لأجل الصلاة يصلون فيه بجماعة كل وقت فله حكم المسجد."
(كتاب الوقف، فصل اختص المسجد بأحكام تخالف أحكام مطلق الوقف، أنه لايشترط أن يقول، كان إلى المسجد مدخل من دار موقوفة، ج: 5 ص: 269،270 ط: رشيدية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144411101244
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن