بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سرکاری زمین میں موجود کان سے نمک نکالنے کے لیے حکومت سے اجاره فاسده (قفيزِ طحان) کا معاہدہ کرنے کا حکم


سوال

امارت اسلامیہ افغانستان کے پہلے دور میں ہم چند لوگوں نے حکومت سے یہ معاہدہ کیا کہ ضلع اندخوی کی نمک کی کان (جو سرکاری زمین میں واقع ہے) سے ہم لوگ مسلسل تین سال تک نمک نکالیں گے ،جس کا 51 فیصد حصہ حکومت کا ہوگا اور 49 فیصد حصہ ہمارا ہوگا ،معاہدے کے بعد دو ماہ کے اندر اندر ہم نے 20 ہزار ٹن نمک کان سے نکالا ،ان ہی دنوں میں ہمارا ایک ساتھی اغوا ہوا، جس کی وجہ سے حالات بہت بگڑ گئے ،پھر ہم نے حکومت سے یہ مطالبہ کیا کہ حکومت نمک تقسیم کر دے، تاکہ ہم اپنا حصہ بیچ دیں ،لیکن حکومت نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ جب تک پرانا نمک نہیں بِکےگا تو اجازت نہیں ،البتہ نکالا گیا نمک ہمارے ہاں محفوظ ہے ،بدقسمتی سے ڈیڑھ مہینے بعد کرزئی کی حکومت آ گئی اور ہمارا نمک ضبط ہونے کے ساتھ ساتھ اس کام کو کسی اور کے حوالے کر دیا گیا ،اس دوران ہم نے کئی مرتبہ طالبان کے وزیرِ مَعادِن سے رابطہ کرکے بات کی ،لیکن انہوں نے کہا کہ اس وقت ہمارے پاس کچھ نہیں ،اور ہم کچھ نہیں کر سکتے ہیں ،اب جب کہ امارتِ اسلامیہ دوبارہ برسرِاقتدار آگئی ہے تو ہم نے ان سے مراجعت کی ،لیکن انہوں نے یہ جواب دیا کہ ہمارا معاہدہ کسی اور سے ہو گیا ہے، اس مذکورہ مسئلہ میں شریعتِ مطہرہ کی راہنمائی درکار ہے کہ کیا ہم اپنے حق کا مطالبہ کر سکتے ہیں ؟اور ہم اپنے حق کے حصول کے لیے کیا طریقہ اختیار کریں ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں آپ نے حکومت کے ساتھ جو معاہدہ کیا تھا (یعنی یہ کہ آپ لوگ سرکاری نمک کی کان سے نمک نکال کر بطور اجرت اسی نمک میں سے 49 فیصد حصہ لیں گے) وہ معاہدہ شرعا جائز نہیں تھا، کیوں کہ فقہی اصطلاح میں ایسے معاہدہ کو "قفیز الطحان" اور "اجرت من جنس العمل" سے تعبیر کیا جاتا ہے،  یعنی "مزدور کے کام کی اجرت کے طور پر  اسی کام سے حاصل ہونے والی چیز کو متعین کرنا" جو کہ شرعا ناجائز ہے، اس لیے کہ جنابِ رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے، لہٰذا مذکورہ معاہدہ ’’ اجرت من جنس العمل‘‘ پر مشتمل ہونے کی وجہ سے یہ اجارہ فاسدہ ہے؛ اس لیے  کہ جو چیز فی الحال موجود نہیں، بلکہ اجیر (مزدور) کے عمل  سے حاصل ہوگی، اس کو اجیر کے لیے اجرت مقرر کرنا جائز نہیں ہے،دوسری وجہ ایسے معاملہ کے فاسد ہونے کی وجہ  یہ بھی ہے کہ اس میں اجرت متعین نہیں، بلکہ مجہول ہے۔

اس کی متبادل جائز صورت یہ ہوسکتی تھی کہ آپ اپنی  اجرت  فی 'ٹن' کے حساب سے  طے کرلیتے، مثلاً ایک ہزار ٹن نمک نکالنے  پر پانچ سو ٹن یا چار سو نوّے ٹن نمک  بطور اجرت طے کرلی جاتی، لیکن یہ شرط نہ لگائی جاتی کہ نکالے جانے والے نمک سے ہی مذکورہ اجرت دی جائے گی، اگرچہ بعد میں اسی غلہ سے مزدوری دے دی جائے  یا ایک ہزار ٹن نمک نکالنے کی اجرت مثلاً دس ہزار روپے ہے اور بعد میں چاہے دس ہزار روپے  دےدے یا دس ہزار کا نمک دےدے۔

لہٰذا چوں کہ آپ کا حکومت سے کیا ہوا معاہدہ اجارہ فاسدہ ہے اس لیے آپ مقرر شدہ اجرت (49 فیصد نمک) کے مطالبے کا حق نہیں رکھتے ہیں، البتہ آپ اجرتِ مثل کے مطالبے کا حق رکھتے ہیں، یعنی آپ نے جو بیس ہزار ٹن نمک نکالا ہے اتنا نمک نکالنے کی عرف میں جو مزدوری اور اجرت بنتی ہے اتنا ہی آپ کا حق ہے، اور آپ کے مطالبے پر حکومت شرعاً آپ کو اجرتِ مثل دینے کی پابند ہے۔

 السنن الكبرى للبيهقي میں ہے:

"أخبرنا أبو بكر بن الحارث الفقيه، أنا علي بن عمر الحافظ، ثنا إسحاق بن محمد بن الفضل الزيات، ثنا يوسف بن موسى، ثنا وكيع وعبيد الله بن موسى، قالا: ثنا سفيان عن هشام أبي كليب عن ابن أبي نعم البجلي عن أبي سعيد الخدري، قال: " نهي عن عسب الفحل " زاد عبيد الله " وعن قفيز الطحان "، ورواه ابن المبارك عن سفيان كما رواه عبيد الله وقال: " نهى " وكذلك قاله إسحاق الحنظلي عن وكيع: " نهى عن عسب الفحل " ورواه عطاء بن السائب عن عبد الرحمن بن أبي نعم قال:"نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم "، فذكره".

(باب النهي عن عسب الفحل، ج: 5، صفحہ: 554، رقم الحدیث: 10854، ط: دار الكتب العلمية، بيروت - لبنات) 

عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری میں ہے:

"وَكَذَا قَالُوا: لَا يجوز إِذا اسْتَأْجر حماراً يحمل طَعَاماً بقفيز مِنْهُ، لِأَنَّهُ جعل الْأجر بعض مَا يخرج من عمله، فَيصير فِي معنى قفيز الطَّحَّان وَقد نهى عَنهُ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم، وَأخرجه الدَّارَقُطْنِيّ وَالْبَيْهَقِيّ من حَدِيث أبي سعيد الْخُدْرِيّ، قَالَ: نهى عَن عسب الْفَحْل وَعَن قفيز الطَّحَّان، وَتَفْسِير: قفيز الطَّحَّان: أَن يسْتَأْجر ثوراً ليطحن لَهُ حِنْطَة بقفيز من دقيقه، وَكَذَا إِذا اسْتَأْجر أَن يعصر لَهُ سمسماً بِمن من دهنه أَو اسْتَأْجر امْرَأَة لغزل هَذَا الْقطن أَو هَذَا الصُّوف برطل من الْغَزل، وَكَذَا اجتناء الْقطن بِالنِّصْفِ، ودياس الدخن بِالنِّصْفِ، وحصاد الْحِنْطَة بِالنِّصْفِ، وَنَحْو ذَلِك، وكل ذَلِك لَا يجوز".

(کتاب الزراعة، باب المزارعة بالشطر و نحوہ، 12/ 166،ط: دار احیاء التراث)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(ولو) (دفع غزلاً لآخر لينسجه له بنصفه) أي بنصف الغزل (أو استأجر بغلاً ليحمل طعامه ببعضه أو ثوراً ليطحن بره ببعض دقيقه) فسدت في الكل؛ لأنه استأجره بجزء من عمله، والأصل في ذلك نهيه صلى الله عليه وسلم عن قفيز الطحان وقدمناه في بيع الوفاء. والحيلة أن يفرز الأجر أولاً أو يسمي قفيزاً بلا تعيين ثم يعطيه قفيزاً منه فيجوز.

(قوله: والحيلة أن يفرز الأجر أولاً) أي ويسلمه إلى الأجير، فلو خلطه بعد وطحن الكل ثم أفرز الأجرة ورد الباقي جاز، ولا يكون في معنى قفيز الطحان إذ لم يستأجره أن يطحن بجزء منه أو بقفيز منه كما في المنح عن جواهر الفتاوى. قال الرملي: وبه علم بالأولى جواز ما يفعل في ديارنا من أخذ الأجرة من الحنطة والدراهم معاً، ولا شك في جوازه اهـ. (قوله: بلا تعيين) أي من غير أن يشترط أنه من المحمول أو من المطحون فيجب في ذمة المستأجر، زيلعي".

(کتاب الاجارۃ، باب الاجارۃ الفاسدۃ، 6/ 56، 57، 58 ، ط:سعید)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"صورة قفيز الطحان أن يستأجر الرجل من آخر ثوراً ليطحن به الحنطة على أن يكون لصاحبها قفيز من دقيقها أو يستأجر إنساناً ليطحن له الحنطة بنصف دقيقها أو ثلثه أو ما أشبه ذلك فذلك فاسد، والحيلة في ذلك لمن أراد الجواز أن يشترط صاحب الحنطة قفيزاً من الدقيق الجيد ولم يقل من هذه الحنطة، أو يشترط ربع هذه الحنطة من الدقيق الجيد؛ لأن الدقيق إذا لم يكن مضافاً إلى حنطة بعينها يجب في الذمة والأجر كما يجوز أن يكون مشاراً إليه يجوز أن يكون ديناً في الذمة، ثم إذا جاز يجوز أن يعطيه ربع دقيق هذه الحنطة إن شاء. كذا في المحيط".

(کتاب الاجارۃ، الباب الخامس عشر فی بیان ما یجوز من الاجارۃ و ما لا یجوز،4/ 444،ط:رشیدیۃ)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وشرطها كون الأجرة والمنفعة معلومتين؛ لأن جهالتهما تفضي إلى المنازعة".

(كتاب الإجارة، شروط الإجارة،6/ 5،ط: سعید)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(الفاسد) من العقود (ما كان مشروعاً بأصله دون وصفه، والباطل ما ليس مشروعاً أصلاً) لا بأصله ولا بوصفه (وحكم الأول) وهو الفاسد (وجوب أجر المثل الاستعمال) لو المسمى معلوماً، ابن كمال ... (تفسد الإجارة بالشروط المخالفة لمقتضى العقد فكل ما أفسد البيع) مما مر (يفسدها) كجهالة مأجور أو أجرة أو مدة أو عمل".

(كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة،6/ 45 ، 46،ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100302

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں