بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سرکاری استانی کا کسی اور استانی سے پڑھوانا اور اپنی تنخواہ میں سے کچھ اسے دینا


سوال

 میری بیوی ہے،  وہ باجوڑ کے ایک سرکاری سکول میں ٹیچر ہے اور ہم اس وقت پنجاب میں رہائش پذیر ہیں اور میری بیوی بھی میرے ساتھ ہے تو گویا کہ سکول میں میری بیوی کی تو غیر حاضری ہے لیکن اس کے لیے ہم نے ایک طریقہ کار اپنایا ہوا ہے کہ میری بیوی نے اپنے بدل میں ایک دوسری ٹیچر کو وہاں رکھا ہوا ہے،  میری بیوی کی تنخواہ 40000ہزار ہے اس میں سے 10000ہزار ہم اس استانی کو دیتے ہیں۔  باقی میری بیوی رکھ لیتی ہے،  تو کیا اس طرح کا طریقہ اپنانااور یہ پیسے لینا میری بیوی کیلئے جائز ہے؟  جبکہ میری بیوی صرف 3ماہ بعد جب وہاں چیکنگ ہوتی ہے،  اس کے لیے حاضر ہوتی ہے،  بس باقی وہ دوسری استانی سب کچھ سنبھالتی ہے سارا سال۔

جواب

صورت مسئولہ میں اگر سرکاری اسکول سے آپ کی بیوی کے معاہدہ میں یہ طے ہوا ہے کہ ملازمت کے لیے وہ خود بھی حاضر ہوسکتی ہے اور اپنی جگہ کسی اور سے بھی کام لے سکتی ہے ، تو آپ کی بیوی کا کسی اور استانی سے مذکورہ اسکول میں کام لینا  اور تنخواہ وصول کرکے کچھ رقم اس استانی کو دے کر باقی رقم خود رکھ لینا  جائز ہے۔ اور اگر اسکول کے معاہدہ میں کسی اور سے اپنی جگہ خدمات دلوانے کی بات طے نہیں ہوئی ہے تو آپ کی بیوی کا بذات خود  ملازمت کے اوقات میں جائے ملازمت میں  حاضر ہونا لازم ہے، اپنی جگہ کسی اور کو بھیج کر اس کی تنخواہ وصول کرنا جائز نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله لا يستعمل غيره) ولو غلامه أو أجيره قهستاني؛ لأن عليه العمل من محل معين فلا يقوم غيره مقامه كما إذا كان المعقود عليه المنفعة، بأن استأجر رجلا شهرا للخدمة لا يقوم غيره مقامه؛ لأنه استيفاء للمنفعة بلا عقد زيلعي.قال في العناية: وفيه تأمل،؛ لأنه إن خالفه إلى خير بأن استعمل من هو أصنع منه أو سلم دابة أقوى من ذلك ينبغي أن يجوز اهـ وأجاب السائحاني بأن ما يختلف بالمستعمل فإن التقييد فيه مفيد وما ذكر من هذا القبيل اهـ.وفي الخانية: لو دفع إلى غلامه أو تلميذه لا يجب الأجر اهـ."

(كتاب الإجارة، شروط الإجارة، ج6، ص18، سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144406102055

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں