بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سرکاری ٹیچر کے نائب کا افسران کی اجازت سے ڈیوٹی کرنا اور کچھ تنخواہ لینا


سوال

 میں نے ایم ایس سی، ایم اے اور بی ایڈ کیا ہے اور اب تک بغیر ڈیوٹی کے ہوں،ہمارے نزدیک ایک پرائمری اسکول ہے جس میں ایک جے وی ٹی استاد ہے، وہ ڈیوٹی نہیں کرتا، کہتا ہے کہ ڈاکٹر نے منع کیا ہے۔ ہمارے ضلع کے ڈپٹی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر نے مجھے ان کی جگہ تعینات کیا اور وہ ٹیچر اپنے سیلری میں سے مجھے بارہ ہزار دے رہا ہے،اب سوال یہ ہے کہ یہ پیسے لینا میرے لیے شرعاً  کیسا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب سائل کو اس کے ضلع کے  ڈپٹی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر نےایک سرکاری استاد (جو کہ ڈاکٹر کے منع کرنے  کی وجہ سےاسکول نہیں آرہا) کےنائب کے  طور پر مقرر کیا ہے ،تو ایسی صورت میں سائل  کاسرکاری استاد کا نائب بن کر اسکول میں کام کرنا درست ہے،اور اس کے  عوض ایجوکیشن آفیسر جتنی تنخواہ مقرر کریں،اتنی تنخواہ کا سائل حق دار ہوگا۔

اور اگر سرکاری استاد اپنی معذوری کی وجہ سے ایجوکیشن آفیسر کی اجازت سے سائل کو اپنا نائب بارہ ہزار تنخواہ پر بناتا ہے ،تو ایسی صورت میں سائل کے لیے یہ پیسے لینا شرعاً جائز ہے ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وإذا شرط عمله بنفسه) بأن يقول له اعمل بنفسك أو بيدك (لا يستعمل غيره إلا الظئر فلها استعمال غيرها) بشرط وغيره خلاصة (وإن أطلق كان له) أي للأجير أن يستأجر غيره."

(کتاب الاجارۃ،ج:6،ص:18، ط: سعید)

وفیہ ایضاً:

"قال في البحر:وحاصل ما في القنية أن النائب لايستحق شيئاً من الوقف؛ لأن الاستحقاق بالتقرير، ولم يوجد، ويستحق الأصيل الكل إن عمل أكثر السنة. وسكت عما يعينه الأصيل للنائب كل شهر في مقابلة عمله، والظاهر أنه يستحق؛ لأنها إجارة وقد وفى العمل بناء على قول المتأخرين المفتى به من جواز الاستئجار على الإمامة والتدريس وتعليم القرآن."

(كتاب الوقف،ج:4، ص:420،ط:سعید)

مجلۃ الاحکام العدلیۃ میں ہے :

"(المادة 571) ‌الأجير ‌الذي ‌استؤجر على أن يعمل بنفسه ليس له أن يستعمل غيره مثلا لو أعطى أحد جبة لخياط على أن يخيطها بنفسه بكذا دراهم ، فليس للخياط أن يخيطها بغيره وإن خاطها بغيره وتلفت فهو ضامن.

(المادة 572) لو أطلق العقد حين الاستئجار فللأجير أن يستعمل غيره."

( کتاب الاجارۃ،ص:106، المادۃ:571، 572،ط:نور محمد کتب خانہ)

احسن الفتاوی میں ہے:

استنابہ میں اجرت کا مستحق اصل ہے یا نائب ؟

’’سوال : امام یا مدرس اپنا نائب مقرر کر کے چلا گیا تو اتنے دنوں کی اجرت کا مستحق کون ہوگا ؟ اصل یا نائب ؟ بینوا توجروا

الجواب باسم ملهم الصواب

امامت اور تدریس میں نائب بنانا جائز ہے، مگر اجرت کا مستحق اصل امام اور اصل مدرس ہوگا ، البتہ اصل نے نائب کے لئے کوئی اجرت مقرر کی ہو تو وہ اس کا مستحق ہوگا ، اور اگر اجرت مقرر نہیں کی تو وہ اجر مثل کا مستحق ہوگا ۔‘‘

(کتاب الاجارۃ، ج:7، ص:285، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508100988

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں