ایک شخص کو سرکار نے 20 شمسی پلیٹ مع ان کے لوازمات کے دئیے عوامی خدمت کے لیےیعنی ٹیوب ویل چلانے کے لیے،لیکن اس شخص نے وہ سارے شمسی پلیٹ بیج دئیے جس شخص نے شمسی پلیٹ اس سےخرید لیے ،اب پوچھنا یہ ہے کہ اس آدمی کے لیے شمسی پلیٹوں کا اس سے خریدناجائزہے نہیں؟ خرید کر آگے فروخت کرنا یا اپنے استعمال میں لانا وغیرہ؟
جس شخص کو سرکار نے شمسی پلیٹیں عوام الناس کی فلاح وبہبود کے لیے دی تھیں، اس پر لازم تھا کہ وہ اسی مصرف میں اسے صرف کرتا، اسے آگے بیچنا بھی جائز نہیں تھا اور جس شخص کو معلوم ہو کہ یہ سرکار کی پلیٹیں ہیں اور یہ اسے بیچ رہا ہے، تو اس شخص کےلیے اسے خریدنا اور اس سے کسی بھی قسم کا نفع اٹھانا جائز نہیں ہے اور اگر کسی نے اس سے وہ پلیٹیں خریدلی ہوں، تو اس پر لازم ہے کہ وہ اسے واپس کرے اور بیچنے والے پر بھی لازم ہے کہ وہ قیمت واپس کرے۔
مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:
حدثنا أبو بكر قال: حدثنا وكيع، قال: حدثنا سفيان، عن مصعب بن محمد، عن رجل، من أهل المدينة قال: قال النبي عليه السلام: «من اشترى سرقة وهو يعلم أنها سرقة فقد شرك في عارها وإثمها»
(کتاب البيوع والأقضية، ج:4، ص:453، ط:دار التاج)
رد المحتار ميں ہے:
"(قوله الحرمة تتعدد إلخ) نقل الحموي عن سيدي عبد الوهاب الشعراني أنه قال في كتابه المنن: وما نقل عن بعض الحنيفة من أن الحرام لا يتعدى ذمتين، سألت عنه الشهاب ابن الشلبي فقال: هو محمول على ما إذا لم يعلم بذلك، أما لو رأى المكاس مثلا يأخذ من أحد شيئا من المكس ثم يعطيه آخر ثم يأخذ من ذلك الآخر آخر فهو حرام اهـ"
(کتاب البیوع،باب البیع الفاسد ،ج:5،ص:98،سعید)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144604101580
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن