ایک گورنمنٹ اسکول میں طلبہ کرام سے مارکس شیٹس یا دیگر مد میں کچھ پیسے وصول کیے جاتے ہیں جو کہ گورنمنٹ کی طرف ممنوع ہوتے ہیں،کیوں کہ گورنمنٹ کی جانب طلبہ سے کسی بھی قسم کی فنڈنگ کی اجازت نہیں، جب اساتذہ کو یہ بات بتائی جاتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم دیگر کاموں میں اسے استعمال کرتے ہیں مثلاً چاک یا اسکول کے دیگر استعمالات میں جو گورنمنٹ کی طرف سے نہیں ملتے ، تو اب اس طرح طلبہ سے فنڈنگ کرنا کیسا ہے؟
صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ اسکول سرکاری ہے اور اس کے اخراجات بھی حکومت اٹھاتی ہے تو اسکول کا عملہ اور اساتذہ کی حیثیت ان کے نمائندوں کی ہے، اور وہ ان کی شرائط وضوابط کے مطابق کام کرنے کے پابند ہیں، لہذا اگر حکومت کی طرف سے طلبہ سے مارکس شیٹ وغیرہ کی مد میں پیسے وصول کرنے کی اجازت نہیں تو اساتذہ کا طلبہ سے پیسے وصول کرنا جائز نہیں ہے۔
باقی اگر واقعۃ ً اسکول کی کچھ ضروریات کی رقم حکومت کی طرف سے نہیں ملتی تو اسکول والوں کو چاہیے کہ وہ حکومت سے اس رقم کے انتظام کی درخواست کریں، اگر حکومت اس کا انتظام نہیں کرتی تو حکومت کی باقاعدہ اجازت سے طلباء کی ضرورت کے لیے ، بقدرِ ضرورت رقم طلباء سے وصول کرنے کی اجازت ہوگی۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"ومنها أن لا يكون العمل المستأجر له فرضا ولا واجبا على الأجير قبل الإجارة فإن كان فرضا أو واجبا عليه قبل الإجارة لم تصح الإجارة؛ لأن من أتى بعمل يستحق عليه لا يستحق الأجرة كمن قضى دينا عليه."
(4 / 191، كتاب الاجارة، فصل في أنواع شرائط ركن الإجارة، ط: سعيد)
’’شرح المجلۃ‘‘ میں ہے:
" لایجوز لأحد أن یتصرف في ملك غیره بلا إذنه أو وکالة منه أو ولایة علیه، وإن فعل کان ضامنًا."
(شرح المجلة، ج:1، ص:61، مادة: 96، دار الکتب العلمیة، بیروت)
الموسوعہ الفقہیہ میں ہے:
"الوكيل أثناء قيامه بتنفيذ الوكالة مقيد بما يقضي به الشرع من عدم الإضرار بالموكل؛ لقول رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا ضرر ولا ضرار، ومقيد بما يأمره به موكله، كما أنه مقيد بما يقضي به العرف إذا كانت الوكالة مطلقة عن القيود، فإذا خالف كان متعديًا ووجب الضمان".
(45/ 87، الوکالة، ضمان الوكيل ما تحت يده من أموال، ط: طبع الوزارة)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144405101157
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن