بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ربیع الثانی 1446ھ 10 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

سرکاری اسکول کے استاد کی ڈیوٹی کے اوقات سے پہلے چھٹی کرنے کی صورت میں تنخواہ کا حکم


سوال

میں سرکاری اسکول میں ملازم ہوں، جس کے روزانہ کے اوقات صبح ۸ بجے سے دوپہر ۲ بجے تک ہوتے ہیں،اور ہرماہ گورنمنٹ کی طرف سے  دو چھٹیاں کرنے کی اجازت ہے،اگر مہینہ میں دو چھٹیاں نہ کریں تو وہ باقی نہیں رہتیں،اسکول کی سطح پر ہمارا نگران و نگہبان ہیڈماسٹر ہوتاہے، اور بڑے افسران کو وہی جواب دہ ہوتاہے، جیساکہ سب معلم ہیڈماسٹر کو جواب دہ ہوتے ہیں،ہیڈ ماسٹر کی طرف سے ہر ماہ میں دوبار مقررہ وقت سے تین گھنٹہ قبل جانے کی اجازت ملی ہوئی ہے،سالانہ دو ماہ کی چھٹیاں جو عموماً جون اور جولائی میں ہوتی ہیں،اوردسمبر کے آخری دس دن میں بھی چھٹیاں ہوتی ہیں،برائے کرم مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:

۱۔ اسکول کے اوقات میں مقررہ اوقات میں آنے میں تاخیر اور وقت  سےپہلے جانےکے بارے میں کیا حکم ہے؟معلم اگر اپنا کام مکمل کرلےاور مقررہ اوقات پورے نہ دے تو اس کاکیاحکم ہے؟آیا اس کی آمدن حلال ہوگی؟

۲۔ہرماہ  میں دو سے زائد چھٹیوں کی صورت میں ہیڈماسٹر کی طرف سے رجسٹر پر باوجود غیر حاضری کےحاضری لگانے کا کیاحکم ہے؟

۳۔مستقل ملازمین کو سالانہ دس چھٹیاں زائد ملتی ہیں جوکہ سال کے مکمل ہونے پر جمع ہوجاتی ہیں،اوراگر ہرماہ میں دو سے زائد چھٹیاں ہوجائیں تو  ان سالانہ دس چھٹیوں سے منہا کی جاتی ہیں،دو سے زائد چھٹیاں کرنا اور سالانہ چھٹیوں میں سے کم نہ کروانا ان کا کیا حکم ہوگا؟اوران چھٹیوں کی رقم جو  ریٹائرمنٹ پر پیسے  ملتے ہیں، ان کے حلال ہونے کا کیا حکم ہوگا؟

۴۔ایک معلم اپنے مضمون کو مکمل ذمہ داری سے بچوں کو  تعلیم دیتاہے،اس  وقت کے علاوہ اسکول کے اندر ذاتی مشغولیات کا کیا حکم ہوگا؟

۵۔اسکول کے کلرک اور ہیڈماسٹر کے ذمہ  تمام معلمین کے متعلقہ مسائل جن کاتعلق ترقی ،بقایاجات اور تنخواہ کی وصولی وغیرہ ، ان کاموں کی ذمہ داری کے لیے دیگر اداروں میں جانا پڑتاہے،حالاں کہ یہ کام کلرک اور ہیڈ ماسٹر کا ہے،لیکن وہ کام نہیں کرتے،اب سوال یہ ہےکہ ہم اسکول کے اوقات میں گورنمنٹ کے دیگراداروں میں جاسکتے ہیں؟

۶۔سرکاری اسکول کے کچھ معلم گھر پر ہوتے ہیں،اور اپنی ملازمت پر نہیں آتے بلکہ ہر ماہ اسکول کے کلرک اور ہیڈ ماسٹر کو متعین رقم دے کر اپنی ذاتی مصروفیات رکھتے ہیں،اس کا کیا حکم ہوگا؟ اگر ان کی یہ آمدنی جائز نہیں ہے تو اس صورت میں  ان کے ساتھ کھانے پینے کا کیا حکم ہے؟

برائے کرم ان سوالات کا شریعت کی روشنی میں جواب دے کر ماجور ہوں۔

جواب

واضح رہے کہ کسی بھی ادارے کے  ملازمین کی حیثیت اجیرِ خاص کی ہوتی ہے،  کیوں کہ وہ وقت کے پابند ہوتے ہیں، اور  اجیرِ  خاص  ملازمت کے مقررہ وقت پر حاضر رہنے سے اجرت (تنخواہ)  کا مستحق ہوتا ہے، اگر وہ  ملازمت کے اوقات میں  حاضر نہیں  رہا  تو اس   غیر حاضری کے بقدر تنخواہ  کا وہ مستحق نہیں ہوتا، لہٰذا آپ کے سوالات کے جوابات مندرجہ ذیل ہیں:

۱۔ سرکار کی طرف سے مقررہ اوقات میں سکول میں حاضر رہنے کی صورت میں   ہی کوئی استاد  اپنی تنخواہ کا مستحق ہوگا ،اگر چہ کوئی کام نہ ہو،مقررہ وقت سے پہلے چلے جانے، یا تاخیر سے آنے  کی صورت میں غیر حاضر  ی والےاوقات کی تنخواہ لینا جائز نہیں، بغیر استحقاق کے جتنے عرصے کی تنخواہ لی ہے وہ سرکاری خزانے میں جمع کروانا ضروری ہے۔

۲۔ اسکول کے ہیڈ ماسٹر کی طرف سے کسی استاد کی غیر حاضری کی صورت میں اس کی  حاضری لگانا  خیانت اور شرعا ناجائز ہے۔

۳۔ اسکول کے مستقل ملازمین  کے لیے سالانہ ملنے والی چھٹیوں کے ایام میں چھٹی نہ کی جائے تو سرکار کی طرف سے ریٹائر منٹ کے بعد ان کا الگ معاوضہ ملتاہے،لہٰذا چھٹیاں کرنے کے باوجود سالانہ چھٹیوں کی مد میں ان کو شمار نہ کرنا خیانت ہے،ا ور ان چھٹیوں کا معاوضہ لینا بھی ناجائز ہے۔

۴۔سرکار کی طرف سے مقررہ اوقات میں  استاد کو اسکول میں حاضررہنا ضروری ہے، اور اس دورانیہ میں صرف اسکول سے متعلق کام، مطالعہ، اسباق کی تیاری وغیرہ کرے تاکہ بچوں کےتعلیمی  حق صحیح طور پر ادا ہو، اس میں حق تلفی یا کوتاہی نہ ہو، استاد کا ذاتی مشغولیات میں وقت صرف کرنے سے اجتناب کرنا چاہئے۔

۵۔اگر اسکول کے ہیڈ ماسٹر اور کلرک اپنی ذمہ داری نہیں نبھارہے،اور اساتذہ کو اپنے کام کروانے کے لیے دیگر سرکاری دفاتر میں خود جانا پڑتاہے،تو اس صورت میں اساتذہ  کو چاہیے کہ اپنے اسباق پڑھا کر،کوئی ایسا مناسب وقت نکالیں کہ جس سے بچو ں کی تعلیم میں حق تلفی بھی نہ ہو  اور اپنے ہیڈماسٹر سے اجازت لے کر اپنے کام کے  لیے  کسی دفتر جائیں تو اس کی گنجائش ہے۔ 

۶۔ ملازمت پر نہ آنے والے اساتذہ  کی آمدنی جائز نہیں ہے، اور ہیڈماسٹر یا کلرک کو دی جانے والی رقم رشوت ہے،جب کہ رشوت لینے اور دینے والے کے متعلق احادیث میں  سخت  وعید آئی ہے، لہٰذا جب معلوم ہو کہ یہ ملازمت پر نہ آنے کے باوجود اپنی تنخواہ  لے رہے ہیں،اور اس کے علاوہ ان کا کوئی آمدن کے ذریعہ نہیں ہے،تو ایسے ملازمین کی تنخواہ ناجائز ہونے کی وجہ سے ان کی تنخواہ کی رقم سے ان کے ساتھ کھانا پینا جائز نہیں۔

مرقاة المفاتیح میں ہے:

"(وعن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما) : بالواو (قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي» ) : أي: معطي الرشوة وآخذها، وهي الوصلة إلى الحاجة بالمصانعة، وأصله من الرشاء الذي يتوصل به إلى الماء، قيل: الرشوة ما يعطى لإبطال حق، أو لإحقاق باطل، أما إذا أعطى ليتوصل به إلى حق، أو ليدفع به عن نفسه ظلماً فلا بأس به، وكذا الآخذ إذا أخذ ليسعى في إصابة صاحب الحق فلا بأس به، لكن هذا ينبغي أن يكون في غير القضاة والولاة؛ لأن السعي في إصابة الحق إلى مستحقه، ودفع الظالم عن المظلوم واجب عليهم، فلايجوز لهم الأخذ عليه".

 (کتاب الأمارة والقضاء، باب رزق الولاة وهدایاهم، الفصل الثاني،ج:7 ،ص:295 ،ط:دارالکتب العلمیة)

فتح القدير للكمال ابن الهمام  میں ہے :

"أن ‌الأجير ‌الخاص هو الذي يستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة ، وإن لم يعلم كمن استؤجر شهرا للخدمة أو لرعي الغنم."

(كتاب الإجارۃ، باب إجارۃ العبد ج:9،ص:140، ط: شركة مكتبة ومطبعة مصفى البابي الحلبي وأولاده بمصر)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ثم الأجرة تستحق بأحد معان ثلاثة إما بشرط التعجيل أو بالتعجيل أو باستيفاء المعقود عليه فإذا وجد أحد هذه الأشياء الثلاثة فإنه يملكها، كذا في شرح الطحاوي."

(کتاب الإجارۃ، الباب الثانی متی تجب الأجرۃ، ج:4، ص:423، ط:ماجدية)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144403101259

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں