بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سرکاری کاموں سے بچی ہوئی رقم کو ذاتی استعمال میں لانا غلط ہے


سوال

ایک شخص سرکاری ملازم ہے،   جب  وہ  سرکاری رقم  سے کوئی کام کرتا ہے  تو  اوپر کے افسر لوگوں کے ذریعہ جو رقم آتی ہے وہ سب کو معلوم ہوتا ہے  کہ کام کم رقم کا ہے اور آئی ہوئی  رقم زیادہ ہے،پھر  درجہ بدرجہ افسر لوگ اس رقم میں سے اپنا حصہ بنا کر رکھتے ہیں،   ہر ایک کو اس میں سے کچھ رقم بچتی ہے، تو ایسی رقم  اپنے اوپر  اور  اپنے اہل و عیال پر  خرچ کرنا  اور ایسے پیسوں  سے حج کرنا جائز ہے یانہیں؟  

جواب

سرکاری کاموں کے لیے دی جانے والی سرکاری رقم ملازمین کے پاس امانت ہوتی ہے، سرکاری کام سے بچ جانے والی رقم سرکار کو واپس کرنا ضروری ہے، بقیہ رقم کو اپنے ذاتی  استعمال میں لانایااس سے حج  کرنا  ناجائز اور حرام ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"لا يجوز التصرف في مال غيره بلا إذنه ولا ولايته."

(كتاب الغصب، مطلب فيما يجوز من التصرف بمال الغير بدون إذن صريح، ج:6، ص: 200، ط:  دار الفكر )

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وأما حكمها فوجوب الحفظ على المودع وصيرورة المال أمانة في يده ووجوب أدائه عند طلب مالكه، كذا في الشمني الوديعة لا تودع ولا تعار ولا تؤاجر ولا ترهن، وإن فعل شيئا منها ضمن، كذا في البحر الرائق."

(كتاب الوديعة، الباب الأول في تفسير الإيداع والوديعة وركنها وشرائطها وحكمها، ج: 4،ص:338، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408102273

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں