بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا سرکاری قبضہ کیا ہوا کوارٹر ملکیت شمار ہوگا اور میراث جاری ہوگی؟


سوال

میرے والد صاحب نے 70  یا 80 کی دہائی میں ایک سرکاری کوارٹر میں قبضہ کی رہائش اختیار کی ، ایک عرصہ کے بعد اپنا ملکیتی مکان سعید بلدیہ ٹاؤن میں بنایا ، اور  سب اہل ِ خانہ وہاں منتقل ہوگئے ، میری شادی ہوچکی تھی ،  میں قریب ہی  ایک جھونپڑی میں کرایہ پر رہتی تھی، میرے والدین نے مجھے اس  سرکاری کوارٹر میں رہائش کا اختیار دیا ،اس وقت سے آج تک اپنے گزارے کے لیے خطیر  رقم خرچ کی اور  اپنے رہنے کے قابل بنا ۔

میرے دونوں والدین  انتقال کرچکے ہیں ، میرے بہن بھائیوں نے اپنے  اپنے گھر بنائے ہوئے ہیں ، والدین کا ملکیتی گھر خالی ہے، اب اچانک میرے بہن بھائیوں  کا مطالبہ ہے کہ میرے قبضہ میں موجود سرکاری قبضہ کوارٹر (جو کہ بقول  ا ن کے  والد کی ملکیت ہے، اس کو) اور سعیدآباد میں والد کا ملکیتی مکان دونوں کو فروخت کرکے سب بہن بھائیوں میں تقسیم کردیا جائے ۔

آپ سے گزارش ہے کہ  کیایہ سرکاری قبضہ کوارٹر جو کہ میرے زیر ِ رہائش ہے ، میرے والد کی ملکیتی جائیداد ہے ؟ اس کو تقسیم کیا جائے گا  یا نہیں ؟

وضاحت:سرکاری کوارٹر  ایک شخص کو سرکار نے گفٹ کیا تھا، جس  میں میرے  والدنے بغیر کسی معاہدے کے رہائش اختیار کی ، اور وہ شخص بعد میں  ہمیشہ کے لیےامریکا چلا گیا ، جاتے ہوئے والد سے یہ کہا کہ اب اس گھر میں تم رہو ،کوئی بھی  تم سے کرایہ لینے نہیں آئے گا ، جب سے ہم اس گھر میں رہ رہے ہیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ  میں سرکاری کوارٹر حکومت نے اگر واقعۃ کسی شخص کو گفٹ کیا تھا تو اس  کا مالک وہی شخص ہے، کوارٹر کے مالک شخص کا سائلہ کے والد سے یہ کہنا کہ"  اب اس گھر میں تم رہو ،کوئی بھی  تم سے کرایہ لینے نہیں آئے گا "یہ گفٹ(ہبہ) نہیں ہے ، بلکہ عاریت ہے یعنی صرف   کوارٹر میں رہنے کی اجازت ہے  ، ملکیت بدستور اصل مالک کی برقرار رہی ، اور عاقدین میں سے کسی کے بھی  انتقال کرجانے سے عاریت کامعاملہ فسخ ہوجاتا ہے ۔اس لیے اب شرعی حکم یہ ہےکہ  یہ کوارٹر اصل مالک سے رابطہ کرکے ان کے حوالے کیا جائے ، یا وہ جس کو اجازت دیں وہ استعمال کرے،بھائیوں کا اس مکان کو والد کی میراث میں تقسیم کرنے کا مطالبہ غلط ہے ۔باقی سعید آباد میں موجود والد کا ملکیتی مکان ان کا ترکہ ہے جو ان کے تمام ورثاء میں شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا۔

الدر المختار میں ہے:

العارية كالإجارة تنفسخ بموت أحدهما.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 686)

(لا) لو قال (هبة سكنى أو سكنى هبة) بل تكون عارية أخذا بالمتيقن وحاصله: أن اللفظ إن أنبأ عن تملك الرقبة فهبة أو المنافع فعارية أو احتمل اعتبر النية

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 689)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100700

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں