بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سرکاری عہدیداروں کاہدیہ لینا


سوال

معلوم یہ کرنا ہے کہ  میں ایک سرکاری ملازم ہوں، ہمارے دفتر میں لوگوں سے کئی مختلف ناموں کے ذریعے رشوت لی جاتی ہے اور حلت کیلئے بطورِ دلیل یہ کہا جاتا ہے کہ مفتیان کرام نے یہ اجازت دے رکھی ہے کہ اگر ہم کسی کا کوئی کام کریں اور اس سے کوئی طمع یا مطالبہ نہ کیا ہو  تو  کام ہو جانے کے بعد اگر کام کروانے والا ہمیں کچھ رقم، کپڑے وغیرہ اپنی خوشی سے دیتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں  ہے،  اسی دلیل کے تحت ہمارے اس سرکاری دفتر میں معمولی کام پر بھی اکثر ملازمین اپنی مقررہ تنخواہوں کے علاوہ عوام سے خوب ہدایا وصول کرتے ہیں ، کیا شرعًا ایسا کرنا درست ہے ۔۔۔؟؟؟

جواب

واضح رہے کہ  رشوت کا لینا دینا دونوں حرام ہے ،اللہ تعالی کی لعنت اور جہنم میں جانے کا  سبب  ہے،لہذا  اگر سرکاری افسران  رشوت لیں اور لوگ  ناجائز اور ناحق کام   کروانے کے لیے رشوت  دیں تو دونوں کے دونوں گناہ گار ہوں گے۔

سرکاری افسران کو جو ہدیہ دیا جاتا ہے اس کے بارے  میں کچھ تفصیل ہے:

1:اگر لوگ حرام،ناجائز کام کروانے کے لیے اس کام   سے پہلے یابعد میں   ہدیہ دیں تو ایسا ہدیہ وصول کرنا ناجائز ہے۔

2: اگرلوگ کام سے پہلے ہدیہ دیں، تو ایسا ہدیہ وصول کرنا بھی ناجائز ہے۔

3:اگر لوگ  کام کروانے کے بعد اس وجہ سے ہدیہ دیں کہ اگر نہیں دیا تو ناراض ہوجاۓ گا، چنانچہ اس کو راضی رکھنے کے لیےہدیہ دیں تو ایسا ہدیہ وصول کرنا بھی ناجائز ہے۔

4: اگر لوگ افسران کے مطالبہ کی وجہ سے کام سے پہلے یا کام ہوجانے کے بعد ہدیہ دیں تو  بھی افسران کے لیے ہدیہ وصول کرنا ناجائز ہے۔

5:اگر مذکورہ بالا باتوں میں سے کوئی بھی بات نہ پاۓ جاۓ بلکہ کام ہوجانے کے بعد لوگ اپنی خوشی سے  افسران کو ہدیہ دیں تو اس ہدیہ کا  لینا جائز ہے، البتہ اجتناب بہتر ہے۔

قرآن کریم میں ہے:

"وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِّنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ."

(بقرة:188)

"اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق مت کھاؤ،اور ان (جھوٹے مقدمہ) کو حکام کے یہاں اس غرض سے رجوع مت کرو کہ (اس کے ذریعہ سے)  لوگوں کے مالوں کا ایک حصہ  بطریق گناہ (یعنی ظلم) کے کھا جاؤ اور تم کو (اپنے جھوٹ اور ظلم کا) علم بھی ہو۔"

(بيان القرآن)

"سَمَّاعُونَ لِلْكَذِبِ أَكَّالُونَ لِلسُّحْتِ."

(مائدة:42)

"وہ غلط باتوں کے سننے کے عادی ہیں بڑے حرام کھانے والے ہیں۔"

(بیان القرآن)

سنن ابو داؤد میں ہے:

"عن ‌عبد الله بن عمرو ، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌الراشي والمرتشي»."

(كتاب الأقضية،باب في كراهية الرشوة،300/3، ط: المكتبة العصرية)  

کنز العمال میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"‌الراشي ‌والمرتشي ‌في ‌النار."

(كتاب الإمارة و القضاء،الباب الثاني في القضاء،الفصل الثالث في الهدية و الرشوة،113/6،مؤسسة الرسالة)

مسلم شریف میں ہے:

"عن ‌أبي حميد الساعدي قال: « استعمل رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلا من الأسد يقال له: ابن اللتبية، قال عمرو، وابن أبي عمر: على الصدقة، فلما قدم قال: هذا لكم وهذا لي، أهدي لي، قال: فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم على المنبر، فحمد الله وأثنى عليه، وقال: ما بال عامل أبعثه فيقول: ‌هذا ‌لكم ‌وهذا ‌أهدي ‌لي، أفلا قعد في بيت أبيه أو في بيت أمه حتى ينظر أيهدى إليه أم لا، والذي نفس محمد بيده، لا ينال أحد منكم منها شيئا، إلا جاء به يوم القيامة يحمله على عنقه: بعير له رغاء، أو بقرة لها خوار، أو شاة تيعر. ثم رفع يديه حتى رأينا عفرتي إبطيه، ثم قال: اللهم هل بلغت. مرتين.»"

(کتاب العمال،باب تحریم ھدایاالعمال،11/6، ط: دار الطباعة العامرة)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"اعلم بأن الرشوة أنواع ......  ونوع منها ‌أن ‌يهدي ‌الرجل إلى رجل مالا بسبب أن ذلك الرجل قد خوفه فيهدي إليه مالا ليدفع الخوف عن نفسه، أو يهدي إلى السلطان مالا ليدفع الظلم عن نفسه، أو عن ماله وهذا نوع لا يحل الأخذ لأحد ......  ونوع منها ‌أن ‌يهدي ‌الرجل إلى رجل مالا ليسوي أمره فيما بينه وبين السلطان ويعينه في حاجته، وإنه على وجهين.الوجه الأول أن تكون حاجته حراما، وفي هذا الوجه لا يحل للمهدي الإعطاء ولا للمهدى إليه الأخذ.الوجه الثاني أن تكون حاجته مباحة وإنه على وجهين أيضا.الوجه الأول أن يشترط أنه إنما يهدي إليه ليعينه عند السلطان، وفي هذا الوجه لا يحل لأحد الأخذ ....... إذا أعطاه قبل أن يسوي أمره أما إذا أعطاه بعد أن سوى أمره ونجاه عن ظلمه فيحل للمعطي الإعطاء، ويحل للآخذ الأخذ، وهو الأصح كذا في محيط السرخسي، وهو الصحيح كذا في فتاوى قاضي خان.الوجه الثاني إذا لم يشترط ذلك صريحا ولكن إنما يهدي إليه ليعينه عند السلطان، وفي هذا الوجه اختلف المشايخ - رحمهم الله تعالى -، وعامتهم على أنه لا يكره هذا إذا لم تكن بينهما مهاداة قبل ذلك بسبب من الأسباب، وأما إذا كانت بينهما مهاداة قبل ذلك بسبب صداقة أو قرابة فأهدى إليه كما كان يهدي قبل ذلك ثم إن المهدى إليه قام لإصلاح أمره فهذا أمر حسن؛ لأنه مجازاة الإحسان بالإحسان، ومقابلة الكرم بالكرم،ونوع آخر أن يهدي الرجل إلى سلطان فيقلد القضاء له، أو عملا آخر وهذا النوع لا يحل للآخذ الأخذ ولا للمعطي الإعطاء كذا في المحيط".

(كتاب ادب القاضي،الباب العاشر،331/3)

فتاوی شامی میں ہے:

"سعى ‌له ‌عند ‌السلطان وأتم أمره لا بأس بقبول هديته بعد وقبله بطلبه سحت."

(کتاب الحضر والإباحة،فصل في البيع،423/6، ط:سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

"ولو قضى ‌حاجته ‌بلا ‌شرط ولا طمع فأهدى إليه بعد ذلك فهو حلال لا بأس به وما نقل عن ابن مسعود من كراهته فورع."

(كتاب القضاء،مطلب في الكلام علي الرشوة و الهدية،362/5، ط:سعيد)

بحر الرائق میں ہے:

"وإن ‌طلب ‌منه ‌أن ‌يسوي ‌أمره ولم يذكر له الرشوة وأعطاه بعدما يسوي اختلفوا فيه قال بعضهم لا يحل له أن يأخذ، وقال بعضهم يحل وهو الصحيح؛ لأنه يريد مجازاة الإحسان فيحل."

(كتاب القضاء، اهل القضاء،285/6، ط:دار الكتاب الإسلامي)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144408101588

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں