بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سرکاری ملازمین کے گروپ انشورنس کا حکم


سوال

ہائی کورٹ کے حکم کے مطابق سرکاری ملازمین اب گروپ انشورنس کے حق دار ہوں گے،معلوم یہ کرنا ہےکہ G.P فنڈ کی طرح یہ گروپ انشورنس کی رقم بھی گورنمنٹ ازخود ملازمین کی تنخواہ میں سے کاٹتی ہےتو کیا یہ رقم ملازمین کے لیے جائز ہوگی؟

جواب

واضح رہے کہ سرکاری ملازمین کو گروپ انشورنس کے نام سے ملنے والی رقم کے بارے میں یہ تفصیل ہے کہ اگر  مذکورہ فنڈ کی مد میں ملازم  کی تنخواہ سے کٹوتی نہیں ہوتی،  بلکہ حکومت اپنے طور پر ملازمین کا گروپ انشورنس کرواتی ہے ، یا ملازم کو  تنخواہ ملنے سے پہلے گروپ انشورنس کے نام  سے جبری کٹوتی  کرتی ہو ، اور ملازم کا براہِ راست انشورنس کمپنی سے کوئی واسطہ نہ ہو  اور بعد میں حکومت  خود   اپنے فنڈ میں اس رقم کو شامل کرکے  اضافہ کے ساتھ وہ رقم خود  ملازمین کو یا ان کے پس ماندگان کو   دے تو   یہ ملازمین یا ان کے  ورثاء کے حق میں سود نہیں ہوگا،البتہ  اگر گروپ  انشورنس کی مد میں سرکاری ملازمین کی تنخواہ سے اختیاری طور پر  کٹوتی ہوتی ہو   یا ملازم کو خود انشورنس کمپنی سے وہ رقم وصول کرنا پڑتی ہو تو اس صورت میں  اس ملازم کے لیے حکومت کی  جمع کرائی ہوئی رقم کے بقدر رقم لینا جائز ہوگا اور  اصل رقم سے زائد رقم  کو  ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کرنا ضروری ہوگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

" ثم الأجرۃ تستحق بأحد معان ثلاثۃ، أما بشرط التعجیل أو بالتعجیل أو باستیفاء المعقود علیہ فإذا وجد أحد ہذہ الأشیاء الثلاثۃ فإنہ یملکہا کذا في شرح الطحاوي، وکما یجب الأجرۃ باستیفاء المنافع یجب بالتمکن من استیفاء المنافع إذا کانت الإجارۃ صحیحۃ ۔"

( الباب الثاني في بیان أنہ متی تجب الأجرۃ وما یتعلق بہ ج4ص413 ط:رشیدیہ)

 الأشباہ والنظائر لإبن نجیم میں ہے:

 ’’الضرورات تبیح المحظورات‘‘۔ ومن ثم جاز أکل المیتۃ عند المخمصۃ وإساغۃ اللقمۃ بالخمر ۔"

(الفن الاول القواعدالكلية ص73ط:درالكتب العلمية)

بدائع الصنائع میں ہے:

 وأما الذي یرجع إلی نفس القرض، فہو أن لا یکون فیہ جر منفعۃ ، فإن کان لم یجز ، نحو ما إذا أقرضہ دراہم غلۃ ؛ علی أن یرد علیہ صحاحاً ، أو أقرضہ وشرط شرطاً لہ فیہ منفعۃً ؛ لما روي عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أنہ نہی عن  قرض جر نفعاً ؛ ولأن الزیادۃ المشروطۃ تشبہ الربا؛ لأنہا فضل لا یقابلہ عوض ، والتحرز عن حقیقۃ الربا وعن شبہۃ الربا واجب ۔

( کتاب القرض ، فصل شرائط ركن القرض ج7ص395 ط:سعيد)  

موسوعۃ القواعد الفقہیۃ   میں ہے:

"ما حصل بسبب خبيث فالسّبيل ردّه۔۔۔ ؛ لأنّ سبيل الكسب الخبيث التّصدّق إذا تعذّر الردّ على صاحبه، ويتصدّق بلا نيَّة الثّواب له، وإنّما ينوى به براءة الذّمّة۔"

(‌‌القاعدة الثالثۃ والسّبعونج9 ص 124 ط:بیروت لبنان)

آپ کے مسائل اور ان کا حل میں ہے:

س… اگر بیمہ حکومت کی طرف سے لازمی قرار دیا جائے، تو کیا ردعمل اختیار کیا جائے؟

 

ج… بیمہ، سود و قمار کی ایک شکل ہے، اختیاری حالت میں کرانا ناجائز ہے، لازمی ہونے کی صورت میں قانونی طور سے جس قدر کم سے کم مقدار بیمہ کرانے کی گنجائش ہو، اسی پر اکتفا کیا جائے۔

(بیمہ کمپنی ،انشورنس وغیرہ ج7ص364 ط:مکتبہ لدھیانوی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100266

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں