بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 ذو القعدة 1445ھ 18 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سرکاری ملازم کا کسی اور سے ڈیوٹی کراکر پینشن خود لینا


سوال

میں ایک اسکول کا چوکیدار تھا، اس وقت میں علم حاصل کررہا تھا، ڈیوٹی میری جگہ میرا چھوٹا بھائی احسن طریقے سے یعنی ایمان داری سے سرانجام دیتا تھا، تقریباً بیس فیصد ڈیوٹی میں نے کی ہے اور اسی فیصد ڈیوٹی میرے بھائی نے کی ہے، جب گیارہ سال پورے ہوئے تو میں اپنی جان کامیڈیکل ان فٹ لکھ کر ڈیوٹی سے نکل گیا حالانکہ الحمد للہ میں صحیح سالم ہوں نہ کوئی بیماری ہے اور نہ میڈیکل ان فٹ ہوں، اس پر مجھے تقریباً چار لاکھ روپے بونس مل گیا اور ہر مہینے 13000 روپے پینشن آتی ہے۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ :کیا میرے لیے یہ بونس لینا جائز تھا یا نہیں؟کیا ماہانہ پینشن لینا میرے لیے جائز ہے یا نہیں؟ اورصرف بیس فیصد لینا میرے لیے جائز ہے یا سب ہی لیناجائز ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جس محکمہ کے ماتحت اسکول میں آپ چوکیدار مقرر ہوئے تھے اگر اس محکمہ کی طرف سے اپنے ملازمین کو  کسی اور سے ڈیوٹی کرانے کی اجازت ہو  تب تو آپ کے لیے اپنی ڈیوٹی بھائی سے کرانا جائز تھا اور اس صورت میں ریٹائرمنٹ پر ملنے والی پوری رقم اور پوری ماہانہ پینشن لینا آپ کے لیے جائز ہے اور اگر محکمہ کی طرف سے اپنے ملازمین کو کسی اور سے ڈیوٹی کرانے کی اجازت نہ ہو تب تو آپ کا اپنے بھائی سے ڈیوٹی کراناجائز نہیں تھا اور اس صورت میں آپ کے لیے اس ڈیوٹی کی پوری تنخواہ حلال نہیں ہے۔

نیزکسی اور سے ڈیوٹی کرانے کی اجازت نہ ہونے کے باوجود آپ نے بھائی سے ڈیوٹی کرائی ہے جبکہ  بیس فیصد ڈیوٹی آپ نے خود سرانجام دی ہے اس لیے ریٹائرمنٹ پر ملنے والی رقم اور ماہانہ پینشن کا صرف بیس فیصد آپ کے لیے حلال ہے، باقی اسی فیصد کا حق دار ڈیوٹی سرانجام دینے والا  بھائی ہے۔

باقی صحت مند ہونے کے باوجود اپنے آپ کو میڈیکل  اَن فِٹ لکھوانا غلط بیانی تھا، اس پر توبہ و استغفار کرنی چاہیے۔

فتاوی شامی  میں ہے:

"(وإذا شرط عمله بنفسه) بأن يقول له اعمل بنفسك أو بيدك (لا يستعمل غيره إلا الظئر فلها استعمال غيرها) بشرط وغيره خلاصة (وإن أطلق كان له) أي للأجير أن يستأجر غيره، أفاد بالاستئجار أنه لو دفع لأجنبي ضمن الأول.

(قوله: بأن يقول له اعمل بنفسك أو بيدك) هذا ظاهر إطلاق المتون وعليه الشروح، فما في البحر والمنح عن الخلاصة من زيادة قوله ولا تعمل بيد غيرك فالظاهر أنه لزيادة التأكيد لا قيد احترازي ليكون بدونه من الإطلاق تأمل.(قوله: لايستعمل غيره) ولو غلامه أو أجيره قهستاني؛ لأن عليه العمل من محل معين فلا يقوم غيره مقامه كما إذا كان المعقود عليه المنفعة، بأن استأجر رجلا شهرا للخدمة لا يقوم غيره مقامه؛ لأنه استيفاء للمنفعة بلا عقد زيلعي.قال في العناية: وفيه تأمل، لأنه إن خالفه إلى خير بأن استعمل من هو أصنع منه أو سلم دابة أقوى من ذلك ينبغي أن يجوز اهـ وأجاب السائحاني بأن ما يختلف بالمستعمل فإن التقييد فيه مفيد وما ذكر من هذا القبيل اهـ.وفي الخانية: لو دفع إلى غلامه أو تلميذه لا يجب الأجراهـ. وظاهر هذا مع التعليل المار أنه ليس المراد بعدم الاستعمال حرمة الدفع مع صحة الإجارة واستحقاق المسمى أو مع فسادها واستحقاق أجر المثل وأنه ليس للثاني على رب المتاع شيء لعدم العقد بينهما أصلا وهل له على الدافع أجر المثل؟ محل تردد فليراجع. (قوله: بشرط وغيره) لكن سيذكر الشارح في الإجارة الفاسدة عن الشرنبلالية أنها لو دفعته إلى خادمتها أو استأجرت من أرضعته لها الأجر إلا إذا شرط إرضاعها على الأصح، وكأن وجه ما هنا أن الإنسان عرضة للعوارض فربما يتعذر عليها إرضاع الصبي فيتضرر فكان الشرط لغوا تأمل (قوله وإن أطلق) بأن لم يقيده بيده وقال خط هذا الثوب لي أو اصبغه بدرهم مثلا؛ لأنه بالإطلاق رضي بوجود عمل غيره قهستاني."

( كتاب الإجارة،  6 / 18، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310101322

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں