ایک بندہ حکومتی ملازم ہو اور وہ کام پر نہ جائے ، پیسے دے کر وہاں کے کسی اور ملازم سے اپنی حاضری لگوادے اور اس کو وقت پر تنخواہیں بھی مل جائیں تو اس کی روزی حرام ہوئی یا حلال ؟
واضح رہے کہ کسی بھی ادارہ کے ملازم کی حیثیت اجیر خاص کی ہوتی ہے ،اجیر خاص پر شرعا لازم ہے کہ وہ اپنے مقررہ اوقات پر حاضر ہو اور مفوضہ امور انجام دے ،اگر ملازم کام پر نہ آئے تو وہ شرعا اجرت (تنخوہ ) کا مستحق نہیں ہوتا۔لہذا صورت مسئولہ میں کسی بھی سرکاری ملازم کے لیے اپنے دفتر وغیرہ نہ جانا اور کسی اور ملازم کو پیسے دے کر اپنی حاضری لگوانااور حکومت سے پوری تنخواہ لینا شرعا جائز نہیں ہے،یہ تنخواہ حلال نہیں ہوگی۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(والثاني) وهو الأجير (الخاص) ويسمى أجير وحد (وهو من يعمل لواحد عملا مؤقتا بالتخصيص ويستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة وإن لم يعمل كمن استؤجر شهرا للخدمة أو) شهرا (لرعي الغنم) المسمى بأجر مسمى بخلاف ما لو آجر المدة بأن استأجره للرعي شهرا حيث يكون مشتركا إلا إذا شرط أن لا يخدم غيره ولا يرعى لغيره فيكون خاصا وتحقيقه في الدرر وليس للخاص أن يعمل لغيره، ولو عمل نقص من أجرته بقدر ما عمل فتاوى النوازل.
(قوله: وليس للخاص أن يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلا يوما يعمل كذا فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا له أن يؤدي السنة أيضا..... (قوله ولو عمل نقص من أجرته إلخ) قال في التتارخانية: نجار استؤجر إلى الليل فعمل لآخر دواة بدرهم وهو يعلم فهو آثم، وإن لم يعلم فلا شيء عليه وينقص من أجر النجار بقدر ما عمل في الدواة."
(كتاب الإجارة،مطلب ليس للأجير الخاص أن يصلي النافلة،6/ 69،ط:سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144411102171
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن