ایک شخص کسی سرکاری محکمہ میں چوکیداری کی نوکری کرتا ہے، کوئی مجبور شخص اس کے پاس آتا ہے اور اپنی مجبوری کا اظہار کرتا ہے تو یہ سرکاری ملازم اس شخص کو اپنی جگہ چوکیداری پر بٹھادیتا ہے، اور اس محکمہ والوں سے اس بات کی اجازت بھی لیتا ہے اور محکمہ کے افسران حضرات اس کو اجازت بھی دے دیتے ہیں ، اب جو تنخواہ ملتی ہے وہ سرکاری ملازم رکھ لیتا ہے اور مجبور شخص کو کچھ معاوضہ دیتا ہے، آیا اس سرکاری ملازم کے لیے تنخواہ وصول کرنا اور اس کو استعمال کرنا جائز ہے؟
صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ سرکاری محکمہ کے قانون اور ضابطہ میں اس بات کی اجازت نہ ہو کہ ملازمین اپنا کام کسی اور سے کرواسکتے ہیں ، بلکہ ان کے لیے خود ڈیوٹی کرنا ضروری ہو تو اس صورت میں ملازمین کے لیے اپنی جگہ کسی اور کو ڈیوٹی پر مقرر کرنا جائز نہیں ہے، اگرچہ افسران اپنے طور پر اجازت بھی دے دیں۔اور خود ڈیوٹی سرانجام دیے بغیر تنخواہ لینا بھی ناجائز اور حرام ہوگا۔ بالخصوص جب کہ چھٹی کرنے کے لیے مذکورہ سرکاری ملازم کی اپنی کوئی ذاتی مجبوری نہیں ہے، بلکہ وہ دوسرے مجبور شخص کو فائدہ پہنچانے کے عنوان سے اپنی جگہ ملازمت پر بٹھاکر سرکاری تنخواہ کو استعمال کررہا ہے، لہذا مجبور شخص کی مدد اپنے ذاتی وسائل سے کی جائے ، اس کے لیے سرکار کی طرف سے مفوضہ ذمہ داری اس کے سپرد نہ کی جائے۔
درالحکام فی شرح مجلۃ الأحکام میں ہے
"الأجير الذي استؤجر على أن يعمل بنفسه ليس له أن يستعمل غيره مثلا لو أعطى أحد جبة لخياط على أن يخيطها بنفسه بكذا دراهم، فليس للخياط أن يخيطها بغيره وإن خاطها بغيره وتلفت فهو ضامن."
( الكتاب الأول البيوع، الباب السادس في بيان أنواع المأجور وأحكامه، الفصل الرابع في بيان إجارة الآدمي،1/657، المادة 571، ط: دار الجيل)
فتاوی شامی میں ہے:
"(وإذا شرط عمله بنفسه) بأن يقول له اعمل بنفسك أو بيدك (لا يستعمل غيره إلا الظئر فلها استعمال غيرها) بشرط وغيره خلاصة (وإن أطلق كان له) أي للأجير أن يستأجر غيره، أفاد بالاستئجار أنه لو دفع لأجنبي ضمن الأول
(قوله: بأن يقول له اعمل بنفسك أو بيدك) هذا ظاهر إطلاق المتون وعليه الشروح، فما في البحر والمنح عن الخلاصة من زيادة قوله ولا تعمل بيد غيرك فالظاهر أنه لزيادة التأكيد لا قيد احترازي ليكون بدونه من الإطلاق تأمل.
(قوله: لايستعمل غيره) ولو غلامه أو أجيره قهستاني؛ لأن عليه العمل من محل معين فلا يقوم غيره مقامه كما إذا كان المعقود عليه المنفعة، بأن استأجر رجلا شهرا للخدمة لا يقوم غيره مقامه؛ لأنه استيفاء للمنفعة بلا عقد زيلعي."
(6 / 18، کتاب الاجارۃ، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144411102690
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن