بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سرکاری ملازم کا اپنی ڈیوٹی نہ کرنا اورحاضری لگانے کے لیے دوسرے شخص کو پیسے دینا


سوال

ایک شخص سرکاری ملازم (اسکول ماسٹر) ہے اور وہ اپنی ڈیوٹی نہیں کرتا یعنی بچوں کوپڑھانے کے لیے اسکول نہیں آتا،اب یہ ماسٹر چاہتا ہے کہ وہ اپنی تنخواہ میں سے کچھ حصہ دوسرے آدمی کو دے دے تاکہ وہ اس کی حاضری لگائے،اور یہ دوسرا آدمی بھی بچوں کو نہیں پڑھائے گا،اس ماسٹر کا یہ عمل کیسا ہے؟اور دوسرے آدمی کے لیے اس طرح کرنے کا کیا حکم ہے؟

اسی محلہ میں اسکول کےساتھ مدرسہ بھی ہے،اگر مدرسہ والا اس ماسٹر سے وہ پیسے لے کراس کی جگہ  محلہ کے بچوں کو پڑھانے کے لیے اپنی طرف سے کوئی آدمی  (اسکول)میں مقرر کرے اور وہ پیسے اس کو دے دے تو کیا یہ اس مدرسہ والے کے لیے جائز ہے؟اور اس مدرس  کے لیے ان پیسوں کے لینے کا کیا حکم ہے؟ 

جواب

1۔واضح رہے کہ اسکول ماسٹر کی شرعی حیثیت اجیر خاص کی  ہوتی ہے اور اجیر خاص اپنی اجرت کا اس وقت مستحق ہوتاہے جب وہ مقرر شدہ مدت میں اپنے آپ کو حوالہ کردے؛لہٰذاسرکاری ملازم(اسکول ماسٹر) اگر وہ اپنی ڈیوٹی خود انجام نہیں دیتا تو اس کے لیے تنخواہ لینا بھی جائز نہیں ہے ،نیز ماسٹر کا کسی دوسرےآدمی کو پیسے دے کر اپنی حاضری لگوانا اور مذکورہ آدمی کا پیسے لے کر حاضری لگانا  دونوں جائز نهيں ۔

2۔سرکاری ملازم(اسکول ماسٹر)  بااختیار افسران کی اجازت   سے محلہ کے بچوں کو پڑھانے کے لیے کوئی آدمی(اسکول)میں  مقرر کرتا ہے اور وہ اس تدریس کا اہل بھی ہو تویہ جائز ہے،اس کے لئے تنخواہ لینا بھی جائز  ہو گا،اور اگر بااختیار افسران کی اجازت   کےبغیر مدرسہ والا اس ماسٹر سے پیسے لے اس کی جگہ  محلہ کے بچوں کو پڑھانے کے لیے اپنی طرف سے (اسکول )میں کوئی آدمی  مقرر کرتا ہے تویہ جائز نہیں ۔اوراس صورت میں مدرسہ والے اورمذکورہ مدرس کےلیے پیسے لینابھی جائزنہیں ہو گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(والثاني) وهو الأجير (الخاص) ويسمى أجير وحد (وهو من يعمل لواحد عملا مؤقتا بالتخصيص ويستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة وإن لم يعمل كمن استؤجر شهرا للخدمة أو) شهرا (لرعي الغنم) المسمى بأجر مسمى بخلاف ما لو آجر المدة بأن استأجره للرعي شهرا حيث يكون مشتركا إلا إذا شرط أن لا يخدم غيره ولا يرعى لغيره فيكون خاصا وتحقيقه في الدرر وليس للخاص أن يعمل لغيره، ولو عمل نقص من أجرته بقدر ما عمل فتاوى النوازل.

(قوله: وليس للخاص أن يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلا يوما يعمل كذا فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا له أن يؤدي السنة أيضا..... (قوله ولو عمل نقص من أجرته إلخ) قال في التتارخانية: نجار استؤجر إلى الليل فعمل لآخر دواة بدرهم وهو يعلم فهو آثم، وإن لم يعلم فلا شيء عليه وينقص من أجر النجار بقدر ما عمل في الدواة."

(كتاب الإجارة،مطلب ليس للأجير الخاص أن يصلي النافلة،6/ 69،ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100704

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں