بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

سرکاری محکمہ کی طرف سے ملنے والی موٹرسائیکل کو ذاتی کاموں میں استعمال کرنے کا حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسلے کے بارے میں:

میں ایک سرکاری ملازم ہوں، اور محکمہ صحت میں سپر وائزر کے عہدے پر کام کر رہا ہوں، میری ڈیوٹی سپرویژن کی ہے، میں فیلڈ یا کسی بھی ہیلتھ سینٹر کو کسی بھی وقت چیک کرسکتا ہوں، اس مقصد کے لیئے محکمہ صحت نے مجھے موٹر سائیکل دی ہے، محکمہ مجھے ایک وزٹ کے 250 روپے ٹی۔اے۔ڈی۔اے کی مد میں دیتی ہیں، اور یہ پیسے جون کے اختتام پر مجھے ملتے ہیں، یعنی ایک سال بعد، ڈیوٹی کے لئیے جو موٹر سائیکل میرے استعمال میں ہے اسکی مرمت یعنی ٹائر تبدیل کرنا، پنکچر لگوانا یا ایکسیڈنٹ، گم شدگی، سروس کرانا، پٹرول، موبل آئل چینج کرنا یہ سب بھی میرے ذمے ہیں، یعنی اپنے پیسوں سے کرتا ہوں، محکمہ نے موٹر سائیکل دیتے وقت ان باتوں کا کوئی ذکر نہیں کیا تھا کہ مرمت، پٹرول، مینٹیننس وغیرہ کے پیسے آپکے، TA/DA کے پیسوں میں شامل ہیں،( یعنی ان 250 روپے میں ) یا یہ ہماری ذمہ ہوگی، بس موٹر سائیکل دے دی، ڈیوٹی کے علاؤہ میں یہ موٹر سائیکل اپنے ذاتی کام کے لیئے بھی استعمال کرتا ہوں، جب موٹر سائیکل کی ساری ذمہ داری( پٹرول، موبل آئل، پنکچر لگوانا، مرمت وغیرہ) میری ہوگئی تو کیا ڈیوٹی کے علاوہ میں یہ موٹر سائیکل ذاتی کام کے لیے استعمال کرسکتا ہوں؟ جواب کا منتظر رہوں گا۔

جواب

واضح رہے کہ موٹر سائیکل کے پٹرول موبائل آئل وغیرہ اگرچہ سائل کے ذمہ ہے تاہم گاڑی کے ذاتی استعمال کرنے کی صورت میں گاڑی کی مالیت میں کمی واقع ہونا لازمی ہے تو اس صورت میں ادارے نےملازمت کے دوران گاڑی استعمال کرنے کے لئے دی ہے، تو اس سے تجاوز کرنا لازم آتا ہے، جو کہ شرعاً غلط ہے، لہذ صورت مسئوں میں سرکاری گاڑی ذاتی استعمال کرنے کے لئے محکمہ کے ذمہ دار سے اجازت لینا ضروری ہوگا۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"و عن أبي حرة الرقاشي، عن عمه - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "«ألا لاتظلموا، ألا لايحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه». رواه البيهقي في "شعب الإيمان"، و الدارقطني في "المجتبى."

(" ألا ") للتنبيه أيضا وكرره تنبيها على أن كلا من الجملتين حكم مستقل ينبغي أن ينبه عليه، و أن الثاني حيث يتعلق به حق العباد أحق بالإشارة إليه، والتخصيص لديه ("لايحل مال امرئ ") أي: مسلم أو ذمي (" إلا بطيب نفس ") أي: بأمر أو رضا منه. رواه البيهقي في " شعب الإيمان "، والدارقطني في " المجتبى ". 

(باب الغصب والعاریة، ج:5، ص:1974، ط:دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101630

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں