بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سرکاری جگہ پر بنی ہوئی دکان کو یہ کہہ کر بیچنا کہ پانچ سا ل میں اس پر جو نقصان ہو اس کا نصف بائع پر آئے گا


سوال

میں نے اور میرے بھائی نے مل کر ایک پلاٹ خریدا ،پھر ہم نے اس کی تعمیر شروع کر لی اسی دوران میرے بھائی نے کہا کہ میں مزید خرچہ برداشت نہیں کر سکتا، چنانچہ ہماری بات یہ طے ہوئی کہ پلاٹ مکمل میں لے لوں اور بھائی کو اس کی لگائی ہوئی رقم دے دوں چنانچہ میرے پاس ایک دکان تھی جو سرکاری جگہ پر تھی میں نے اسےکرایہ پر دیا ہوا تھا، اس دکان کی اس وقت قیمت تیرہ لاکھ روپے تھی، میں نے دکان بھائی کو ساڑھے گیارہ لاکھ میں فروخت کر دی،  بھائی نے میرے ساتھ پلاٹ میں بیس لاکھ روپے لگائے تھے، نو لاکھ ان پر قرض تھا، وہ انہوں نے کہا کہ آپ میرے بقیہ پیسوں سے میرا قرض ادا کر دیں چنانچہ میں نے ان کا قرض بھی ادا کر دیا۔

جس وقت میں نے ان کو دکان فروخت کی تھی تو میں نے ان سے کہا کہ اگر پانچ سال میں دکان کو نقصان ہوا تو آدھا میں برداشت کر لوں گا، پانچ سال تک دکان کو  کوئی نقصان نہیں ہوا، پانچ سال بعد ایسا ہوا کہ حکومت نے اس جگہ عمارتیں منہدم کروا کر دیں،اس میں وہ دکان بھی گر گئی۔

دریافت یہ کرنا ہے کہ کیا اب مجھے آدھا نقصان دینا ہوگا جب کہ پانچ سالوں کے دوران ایک مرتبہ میرے بھائی نے مجھے یہ بھی کہا تھا اب نفع نقصان میرا ہوگا، آپ کا اس دکان سے کوئی تعلق نہیں ہے اور میں نے اس پر رضامندی ظاہر کی تھی۔

جواب

صورت مسئولہ میں مذکورہ دکان کی جگہ اگر چہ سرکار کی تھی لیکن اس پر موجود دکان سائلہ کی ملکیت میں تھی، لہذا جب سائلہ نے وہ دکان بھائی کو فروخت کر دی تو  یہ  دکان سائلہ کے بھائی کی ہوگئی،اب حکومت کے دکان کو منہدم کردینے کے بعد سائلہ کے ذمہ بھائی کو  اس دکان کا آدھا نقصان دینا لازم نہیں ہے۔

ہدایہ مع فتح القدير میں ہے:

"ثم جملة المذهب فيه أن يقال: كل شرط يقتضيه العقد كشرط الملك للمشتري لا يفسد العقد لثبوته بدون الشرط وكل شرط لا يقتضيه العقد وفيه منفعة لأحد المتعاقدين أو للمعقود عليه وهو من أهل الاستحقاق يفسده كشرط أن لا يبيع المشتري العبد المبيع

(قوله ثم جملة الأمر فيه) أي في الشرط (أنه إما أن يقتضيه العقد) كشرط أن يحبس المبيع إلى قبض الثمن ونحوه فيجوز؛ لأنه مؤكد لموجب العقد أو لا يقتضيه، لكن ثبت تصحيحه شرعا بما لا مرد له كشرط الأجل في الثمن والمثمن في السلم".

(‌‌كتاب البيوع،باب البيع الفاسد6/ 442،ط:دار الفکر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

 إما أن كان شرطا يقتضيه العقد ومعناه أن يجب بالعقد من غير شرط فإنه لا يوجب فساد العقد كشرط تسليم المبيع على البائع وشرط تسليم الثمن على المشتري وإما أن كان شرطا لا يقتضيه العقد على التفسير الذي قلنا إلا أنه يلائم ذلك العقد ونعني به أنه يؤكد موجب العقد...وإذا اشترى شيئا بشرط أن يكفل فلان بالدرك فهو كالبيع بشرط أن يعطي المشتري بالثمن رهنا أو بنفسه كفيلا فإنه يصح إذا كان الكفيل حاضرا في مجلس العقد وكفل كذا في الصغرى

(كتاب البيوع،الباب العاشر في الشروط التي تفسد البيع والتي لا تفسده3/ 133،ط:رشيدية)

درر الحكام شرح غرر الأحكام میں ہے:

«(مشتر وجد بمشتراه ما ينقص ثمنه عند التجار) وهو العيب المعتبر شرعا والمراد به عيب كان عند البائع ولم يره المشتري حين البيع ولا عند القبض؛ لأنه رضا (أخذه بكل الثمن أو رده) ؛ لأن مطلق البيع يقتضي ‌سلامة ‌المبيع، فإذا فاتت خير لئلا يتضرر بلزوم ما لا يرضى به»

(‌‌كتاب البيوع،باب خيار العيب،2/ 160،ط:دار إحياء الكتب)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144303101104

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں