بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سرکاری جگہ پر تعمیر کی گئی مسجد کی حیثیت


سوال

ہمارے گاؤں میں ایک چھوٹی سی مسجد بنی ہوئی ہے جو کہ سرکاری جگہ پر بنائی گئی ہے، وہ سرکاری جگہ روڈ کی ہے، جس کے خالی ہونے کی وجہ سے تقریباً تمام لوگوں نے اپنی دیواریں آگے بڑھادی ہیں اور اسی روڈ کے برابر میں ایک چھوٹی سی مسجد بھی بنادی ہے۔ مسجد اہلِ محلہ نے نہیں بنائی ہے، بلکہ ایک سیٹھ نے بنائی ہے جس کے قبضے میں یہ جگہ ہے، اب سوال یہ ہے کہ اس مسجد کی حیثیت شرعی مسجد کی ہے یا اس کو "مصلیٰ" کہیں گے؟ اور اس مسجد میں نمازِ جمعہ کی ادائیگی درست ہے یا نہیں؟

وضاحت: مسجد کو بنے ہوئے آٹھ سال ہوچکے ہیں، سرکار کی طرف سے مسجد بننے پر آج تک کوئی اعتراض نہیں کیا گیا ہے۔ ہمارے گاؤں کا شمار بڑے گاؤں میں ہوتا ہے، گاؤں کی آبادی تقریباً پانچ ہزار افراد پر مشتمل ہے، گاؤں میں تمام ضروریاتِ زندگی موجود ہیں، گاؤں کی دیگر مساجد میں جمعہ کی نماز ہوتی ہے۔

جواب

اس مذکورہ زمین کو سرکار نے پہلے سے روڈ بنانے کے لیے مختص کیا ہوا تھا تو ایسی سرکاری زمین پر سرکار کی اجازت کے بغیر مسجد بناناجائز نہیں تھا، اس لیے اگر سرکار نے یاسرکاری مجاز افسر نے اجازت نہیں دی ہے تو مذکورہ جگہ شرعی مسجد یا شرعی مصلیٰ نہیں ہے، اس لیے اس جگہ سرکار کی اجازت کے بغیر جمعہ کی نماز سمیت کسی بھی نماز کی جماعت کروانا جائز نہیں ہے، البتہ جو نمازیں اب تک پڑھی جاچکی ہیں وہ ادا ہوچکی ہیں، ان کے دوہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔  اگر سرکار کو اس جگہ کی قیمت کی ادائیگی کرکے یاکسی طریقے سے راضی کرکے اس جگہ پر مسجد تعمیر کرنے کی اجازت حاصل کرلی جائے تو مذکورہ جگہ شرعی مسجد بن جائے گی اور یہاں جمعہ اور دیگر پنج وقتہ نمازوں کی جماعت کروانا جائز ہوگا۔

طحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:

"و تكره في أرض الغير بلا رضاه، و إذا ابتلي بالصلاة في أرض الغير و ليست مزروعةً أو الطريق إن كانت لمسلم صلى فيها، و إن كانت لكافر صلى في الطريق.

(قوله: صلى فيها) لأن الظاهر أنه يرضي به لأنه ينال أجراً من غير اكتساب منه".

(كتاب الصلاة، فصل في المكروهات، ص: 358، ط: قديمي)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الصلاة في أرض مغصوبة جائزة و لكن يعاقب بظلمه، فكما كان بينه و بين الله تعالى يثاب، و ما كان بينه و بين العباد يعاقب، كذا في مختار الفتوي".

(كتاب الصلاة، الباب السابع، الفصل الثاني فيما يكره في الصلاة و ما لا يكره فيها،1/ 109،ط:رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"و في الواقعات: بنى مسجداً على سور المدينة لاينبغي أن يصلي فيه؛ لأنه حق العامة فلم يخلص  الله تعالى، كالمبني في أرض مغصوبة".

(كتاب الصلاة، مطلب في الصلاة في الأرض المغصوبة. و دخول البساتين و بناء المسجد في ارض الغصب، ١/ ٣٨١، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100484

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں