بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

سرکاری ادارے میں ملازمت حاصل کرنے کے لیے رشوت دینا


سوال

 سوال یہ ہے کہ آج کل سرکاری نوکری بغیر رشوت کے ملتی ہی نہیں ہے،  جس ادارے میں جاؤں پہلے کچھ مانگتے ہیں بغیر رشوت کے کوئی کام نہیں ہوتا،  کیا اب ایسا کرنا صحیح ہے؟ یہ مسئلہ بہت  عام ہو گیا ہے تو  کیا عمومِ  بلویٰ کی وجہ سے اس میں کوئی جواز آتا ہے یا  پھر جواز کی کوئی اور صورت ہے تو  اس کے متعلق کچھ رہنمائی  فرمائیں؟

جواب

رشوت لینے اور دینے والے پر حضورِ اکرم ﷺ نے لعنت  فرمائی ہے، چناں چہ رشوت لینا اور دینا دونوں ناجائز ہیں، اس لیے حتی الامکان  رشوت  دینے  سے بچنا بھی واجب ہے، البتہ اگر کوئی  جائز کام تمام قانونی تقاضوں کو پورا کرنے اور حق ثابت ہونےکے باوجود صرف رشوت نہ دینے کی وجہ سے  نہ ہورہا  ہو تو ایسی صورت میں حق دار  شخص کو چاہیے  اولاً وہ اپنی پوری کوشش کرے کہ رشوت دیے  بغیر کسی طرح (مثلاً حکامِ بالا کے علم میں لاکر یا متعلقہ ادارے میں کوئی واقفیت نکال کر)  کسی طرح اس کا کام ہوجائے،اور جب تک کام نہ ہو  اس وقت تک صبر کرے اور صلاۃ الحاجۃ پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے مسئلہ حل ہونے کی دعا مانگتا رہے، لیکن اگر شدید ضرورت ہو اور  کوئی دوسرا متبادل راستہ نہ ہو تو  اپنے جائز ثابت شدہ حق کے حصول کے  لیے مجبوراً  رشوت دینے کی صورت میں  دینے والا گناہ گار نہ ہوگا، البتہ رشوت لینے والے شخص کے حق میں رشوت کی وہ رقم ناجائز ہی رہے گی اور اسے اس رشوت لینے کا سخت گناہ ملے گا۔

البتہ  صورتِ  مسئولہ میں اولاً ملازمت  کے لیے سرکاری اداروں   کے علاوہ غیر سرکاری محکموں میں ملازمت اور روزگار کے مواقع تلاش کیے جائیں ، اس  لیے کہ  مذکورہ رقم کی ادائیگی اپنے ثابت شدہ حق کے حصول اور تحفظ کے جواز کے تحت نہیں آتی، لہٰذا اس اس کام  کے لیے رشوت  لینا اور دینا دونوں حرام ہیں۔

ہاں اگر  کوئی شخص اس موقع پر رشوت دے کر ملازمت حاصل کرچکا ہو اور وہ اس نوکری کا اہل بھی ہو،تو ایسے   شخص کے لیے یہ ملازمت ،تنخواہ اور اس پر ملنے والی  مراعات جائز شمار ہوں گی، بشرطیکہ وہ اس ملازمت کو امانت داری کے ساتھ پورا کرے، نیز اس پر رشوت دینے کی وجہ سے  توبہ و استغفار بھی لازم ہوگی۔ 

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"وعن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما، قال: «لعن رسول الله ‌الراشي والمرتشي» رواه أبو داود، وابن ماجه.

 (وعن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما) : بالواو (قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي» ) : أي: معطي الرشوة وآخذها، وهى الوصلة إلى الحاجة بالمصانعة. وأصله من الرشاء الذي يتوصل به إلى الماء، قيل: الرشوة ما يعطى لإبطال حق، أو لإحقاق باطل، أما إذا أعطى ليتوصل به إلى حق، أو ليدفع به عن نفسه ظلماً فلا بأس به، وكذا الآخذ إذا أخذ ليسعى في إصابة صاحب الحق فلا بأس به، لكن هذا ينبغي أن يكون في غير القضاة والولاة ; لأن السعي في إصابة الحق إلى مستحقه، ودفع الظالم عن المظلوم واجب عليهم، فلايجوز لهم الأخذ عليه."

(کتاب الأمارۃ و القضاء، باب رزق الولاۃ و هدایاهم،  ج نمبر ۶ ص نمبر ۲۴۳۷، دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"دفع المال للسلطان الجائر لدفع الظلم عن  نفسه و ماله و لاستخراج حقّ له ليس برشوة يعني في حق الدافع اهـ."

 (6/ 423،  کتاب الحظر والإباحة، فصل في البیع، ط: سعید)

الموسوعة الفقهیة الکویتیةمیں ہے:

"ويحرم طلب الرشوة، وبذلها، وقبولها، كما يحرم عمل الوسيط بين الراشي والمرتشي.

غير أنه يجوز للإنسان - عند الجمهور - أن يدفع رشوة للحصول على حق، أو لدفع ظلم أو ضرر، ويكون الإثم على المرتشي دون الراشي ۔ قال أبو الليث السمرقندي: لا بأس أن يدفع الرجل عن نفسه وماله بالرشوة ... واستدلوا من الأثر بما ورد عن ابن مسعود رضي الله عنه أنه كان بالحبشة فرشا بدينارين، حتى خلي سبيله. وقال: إن الإثم على القابض دون الدافع. وعن عطاء والحسن: لا بأس بأن يصانع الرجل عن نفسه وماله إذا خاف الظلم."

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144308101638

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں