بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سرکاری ڈاکٹر کا اجازت سے اپنا کلینک چلانا


سوال

 کیا فرماتے ہیں علماء دین متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں ایک ڈاکٹر ہوں، اپنے شہر کے ایف سی ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں میری سرکاری ڈیوٹی لگی ہے اور اسی شہر میں میرا ذاتی کلینک بھی ہے جو ہیڈ کوارٹر سے زیادہ دور نہیں ہے۔ ہیڈ کوارٹر کے مقامی افسر نے مجھے اجازت دی ہے کہ آپ اپنے کلینک پر ڈیوٹی کرتے رہو، ہمارے ایف سی والے جو بیمار ہوتے رہیں گے ان کو ہم آپ کے پاس بھیجتے رہیں گے آپ ان سے فیس نہ لواور مقامی افسر کا کہنا ہے کہ میں آپ کو اس بات کی اجازت دینے کا قانوناً مجاز بھی ہوں اور اس میں ان کو فائدہ یہ ہے کہ سرکاری وقت تو مخصوص وقت ہوتا اس میں میں ہسپتال پر ہوتا اور صرف اسی وقت مریض دیکھتا جب کہ کلینک میں وہ ہر وقت مریض بھیج سکیں گے۔اب سوال یہ ہے کہ اگر واقعی وہ افسر قانوناً مجاز ہو تو اس کی اجازت سے میں مذکورہ عمل کرسکتا ہوں؟

جواب

ملحوظ رہے  جب حکومت کی طرف سے عوام الناس کے مفاد  کی خاطر کوئی  پابندی ہو تو عوام الناس کے  لیے  حکومتی احکامات کی پاس داری کرتے ہوئے اس سے اجتناب  ضروری ہے؛  لہذا اگر واقعتًا  یہ  قانون  مطلق ہو کہ سرکاری ڈاکٹر اپنا ذاتی کلینک  پورے دن میں کسی وقت بھی نہیں چلا سکتے ، تو  سرکاری ڈاکٹر کے لیے اس کی خلاف ورزی  کرتے ہوئے ذاتی کلینک کھولنا درست   نہ ہوگا،  البتہ اگر کسی نے کیا تو کمائی کو  حرام نہیں کہا جاسکتا، بشرطیکہ جس وقت سرکاری ڈیوٹی ہو، وقت پورا دے اور کام بھی پوری دیانت اور ذمہ داری سے کرے۔ اور اگر سرکاری ڈیوٹی کے اوقات میں اپنا ذاتی کلینک چلائے گا تو جتنا وقت سرکاری ڈیوٹی کے وقت میں  سے نہیں دے گا اس کی تنخواہ حلال نہیں ہوگی۔

اور اگر سرکاری ڈاکٹر کی ملازمت کے اوقات متعین ہیں اور قانون یہ ہے کہ ان اوقات میں دوسری ملازمت کی اجازت نہیں ہے، ہاں اگر کوئی اس وقت کے علاوہ کوئی کام کرتاہے تو اس کی ممانعت نہیں  ہے تو ملازمت کے اوقات کے علاوہ دیگر اوقات میں اپنا کام کرنے کی اجازت ہوگی۔

صورت مسئولہ میں اگر سائل کو مقامی افسر نے اس کی اجازت دی ہے اور اس کو بڑے افسران کی طرف سے بھی مذکورہ ترتیب کے مطابق  اجازت ہے تو سائل کا مذکورہ کلینک چلانا جائز ہے، اور بہتر ہے کہ اس بارے میں متعلقہ افسران و حکام سے رابطہ کرکے قانون کی تفصیل معلوم کرلی جائے، اور اس کے مطابق عمل کیا جائے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"لأنّ طاعة الإمام فيما ليس بمعصية فرض، فكيف فيما هو طاعة؟."

(كتاب السير، فصل في أحكام البغاة، ج:9، ص :453، ط:دارالحديث. القاهرة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410101563

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں