بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

سرکاری چیزیں خرید کر بیچنا


سوال

میں ایک پرچون دکان چلاتا ہوں،  مجھے کوئی سیلز مین یوٹیلیٹی سٹور کا گھی فروخت کرنا چاہتا ہے جو کہ بازار کے ریٹ سے تھوڑا سستا ہے،  کیا یوٹیلیٹی سٹور کا گھی اس طرح اپنی دکان میں فروخت کرنا جائز ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر آپ کو باوثوق ذرائع سے یہ بات معلوم ہے کہ وہ شخص سرکاری اسٹور سے مال چوری کرکے آپ کو بیچتا ہے تو چوں کہ چوری کے مال کا وہ خود بھی مالک نہیں بنتا تو اس کو آگے بیچنا بھی جائز نہیں ہوگا اور  چوری کا مال خریدنا اور اس کو آگے بیچنا اور اس کا نفع استعمال کرنا سب ناجائز اور حرام ہے، اسی طرح وہ خلافِ قانون خفیہ طور پر آپ کو بیچتا ہے، اگرچہ اس کی قیمت سرکار کے کھاتے میں جمع کراتا ہے تو بھی یہ خیانت ہے، اس کام میں اس کا تعاون کرنا اور اس سے یہ خریدنا جائز نہیں ہوگا۔ اور اگر یہ مال چوری کا نہیں ہے اور باوثوق ذرائع سے آپ کو پتا چلے کہ یہ واقعی خریدا ہوا مال ہے اور کسی جگہ سے اس نے باقاعدہ اس کو خریدا ہے اور آپ کو بیچ رہا ہے تو آپ کا خریدنا، بیچنا اور اس کا منافع لینا سب جائز ہے۔

السنن الکبری   میں ہے:

"عن شرحبيل مولى الأنصار , عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: "من اشترى سرقةً وهو يعلم أنها سرقة فقد أشرك في عارها وإثمها".

(5/ 548) کتاب البیوع، باب كراهية مبايعة من أكثر ماله من الربا أو ثمن المحرم، ط: دار الكتب العلمية، بيروت – لبنان)

فتاوی شامی میں ہے:

"والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لايحل له ويتصدق به بنية صاحبه".

 (5/99،مَطْلَبٌ فِيمَنْ وَرِثَ مَالًا حَرَامًا، ط: سعید)

وفیه أیضاً:

"وفيه: الحرام ينتقل، فلو دخل بأمان وأخذ مال حربي بلا رضاه وأخرجه إلينا ملكه وصح بيعه، لكن لايطيب له ولا للمشتري منه.

 (قوله: الحرام ينتقل) أي تنتقل حرمته وإن تداولته الأيدي وتبدلت الأملاك، ويأتي تمامه قريباً (قوله: ولا للمشتري منه) فيكون بشرائه منه مسيئاً؛ لأنه ملكه بكسب خبيث، وفي شرائه تقرير للخبث، ويؤمر بما كان يؤمر به البائع من رده على الحربي؛ لأن وجوب الرد على البائع إنما كان لمراعاة ملك الحربي ولأجل غدر الأمان، وهذا المعنى قائم في ملك المشتري كما في ملك البائع الذي أخرجه".

(5/ 98، کتاب البیوع،باب البیع الفاسد ، مطلب الحرمۃ تتعدد، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144204201207

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں