بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سرکاری بس سے ایکسیڈنٹ میں حکومت کی طرف سے ملنے والے پیسوں کا حکم


سوال

سرکاری بس سے ایکسیڈنٹ پرحکومت سے جو پیسے ملتے ہیں وہ لینا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ سرکاری بس سےایکسیڈنٹ پرحکومت کی طرف سے ملنے والی رقم ایکسیڈنٹ شدہ شخص یا اس کے رشتہ داروں کے لیےحکومت کی طرف سے ملنے والی رقم دیت ہے،اس کا لینااور استعمال کرنا جائز ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(و) الثالث (خطأ) .... (وموجبه) ..... (الكفارة والدية على العاقلة) والإثم دون إثم القاتل ....."

(‌‌كتاب الجنايات، ج:6 ص:531 ط: سعید)

فتاوى هندية میں ہے:

"قال الفقيه أبو الليث - رحمه الله تعالى - اختلف الناس في أخذ الجائزة من السلطان، قال بعضهم: يجوز ما لم يعلم أنه يعطيه من حرام، قال محمد - رحمه الله تعالى -: و به نأخذ ما لم نعرف شيئًا حرامًا بعينه ، وهو قول أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - وأصحابه ، كذا في الظهيرية."

(كتاب الكراهية، الباب الثاني عشر في الهدايا والضيافات، ج:5 ص:342 ط: دار الفکر)

التشریع الجنائی الاسلامی میں ہے : 

"فقالوا ما لنا من بينة. قال: فيحلفون. قالوا: لا نرضى بأيمان اليهود. فكره رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌أن ‌يبطل ‌دمه فوداه بمائة من إبل الصدقة."

(الباب الأول فى الجنايات،الفصل الثالث الجناية على ما هو نفس من وجه دون وجه أى الجناية على الجنين أو الإجهاض، ج:2 ص:292 ط: دار الكاتب العربي)

الموسوعۃ الفقہیہ میں ہے:

"ولم يقبلوا أيمان اليهود، فوداه النبي صلى الله عليه وسلم من عنده كراهية أن يبطل دمه ومن ذلك أيضا أجرة تعريف اللقطة، فللقاضي أن يرتب أجرة تعريفها من بيت المال، على أن تكون قرضا على صاحبها."

(حرف الباء، بيت المال، البيت الرابع: وهو بيت مال الفيء، مصارف بيت مال الفيء، أولويات الصرف من بيت المال، ج:8 ص:255 ط: وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508102052

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں