بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سرکاری بینک کی طرف سے ملنے والی پینشن کاحکم


سوال

میرا ایک مقتدی ہے  ،وہ تین بھائی ہیں ،ان کے والد کا انتقال ہوگیا ہے ،اورہر ماہ ان کی والدہ کے پاس ایک محدود رقم آتی ہے جو ان کے والد صاحب کی پنشن کے طور پر آتی ہے ،اور ان کے والد ایک سرکاری بینک میں ملازم تھے ،اب سوال یہ ہے کہ ان کے بچےاور ان کی والدہ اس رقم کو استعمال کرسکتے ہیں ؟ان کا ایک بیٹا معذور ہے جو کہ کمانے وغیرہ کے حساب سے بھی کمزور ہے ۔

کیا ان کی والدہ اس رقم کو اس بیٹے پر خرچ کر سکتی ہے جو معذور بھی ہے اور مالی اعتبار سے  کمزور بھی ہے ؟

ان حضرات کا یہ کہنا ہے کہ ہم اس رقم کو اپنے کھانے پینے اور پہننے کی چیزوں کے اندر استعمال نہ کریں،بقیہ کام مثلا  گاڑی وغیرہ ٹھیک کرانا،گھر کے دوسرے کاموں میں  اس رقم کا لگانا،  اسی مال کے ذریعے خاندان کے اندر کسی مستحق لڑکی کی شادی وغیرہ کرا دینا ،کیا شریعت میں اس مال کا اس طرح استعمال کرنا جائز ہے ؟اور ایسی رقم جن لوگوں کے پاس موجود ہو وہ ایسی رقم کا کیا کریں؟

جواب

واضح رہے کہ ملازمین یا ان کے بعد ان کے لواحقین کو ملنے والی پینشن کی رقم  متعلقہ ادارہ کی طرف سے عطیہ اور تبرع ہوتی ہے، ادارہ  جس کے نام پر جاری کرے وہی اس کا مالک ہوتا ہے، اب اگر متعلقہ ادارے کا کام جائز ہے تو اس کی طرف سے ملنے والی  پینشن بھی جائز ہے، اور اگر اس ادارے کا کام ناجائز اور حرام ہے تو اس کی طرف سے ملنے والی  پینشن بھی ناجائز ہوگی۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں بینک کی طر ف سے ملنے والی پینشن حرام ہے، اس لیے مرحوم کے ورثاء پر یہ لازم ہے کہ وہ  اس رقم کو وصول ہی نہ کریں اگر لے لی ہو تو غرباء میں ثواب کی نیت کے بغیر اسے  تقسیم کردیں ،اس رقم کو مرحوم کے معذور بیٹے صاحب نصاب پر خرچ بھی نہیں کیاجاسکتاہےاور نہ ہی مرحوم کے صاحبِ حیثیت و مالدار ورثاءاس کو اپنے کسی  بھی قسم کے استعمال میں لاسکتے ہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ويردونها على أربابها إن عرفوهم، وإلا تصدقوا بها؛ لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه."

(كتاب الحظر والاباحة، ج:6، ص:385، ط: سعيد)

معارف السنن شرحِ جامع الترمذی    میں ہے:

"قال شیخنا: ویستفاد من کتب فقهائنا کالهدایة وغیرها: أن من ملك بملك خبیث، ولم یمكنه الرد إلى المالك، فسبیله التصدقُ علی الفقراء ...

قال: و الظاهر أن المتصدق بمثله ینبغي أن ینوي به فراغ ذمته، ولایرجو به المثوبة."

(أبواب الطهارة، باب ما جاء: لاتقبل صلاة بغیر طهور، مسئلۃ فاقد الطهرین،  ج:1، ص:34، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402101343

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں