بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سرکاری محکموں کے آلات کا ذاتی استعمال میں لانا


سوال

ہمارے علاقے میں خیبر پختون خواہ حکومت نے 8 سال قبل کسی نجی تنظیم کے تعاون سے بجلی کے لئےجنریٹر لگائے ہیں،جو کہ پانی سے چلتے ہیں جس کے لیے تنظیم نے کچھ حدود تک کھمبے اور تاریں لگائی ہیں جب کہ دور دراز علاقے کے لوگوں نے اس جنریٹرکو بجلی کی ترسیل کے لیے تنظیم کی طرف سےکھمبےاورتاریں نہ ہونےکی بنا پر سرکاری ادارے واپڈاکی بچھائی ہوئی بجلی لائن اور کھمبے ان کی اجازت کے بغیر استعمال کیےہیں ،واپڈا کی بچھائی ہوئی بجلی لائن جو کہ تقریباً 10 سال سے بےکار پڑی ہے،اس میں بجلی کی ترسیل مکمل بند ہو چکی ہے،اور بیچ میں سے تاریں اور کھمبے لوگوں نے اتار دیے ہیں،واپڈا کے میٹر بھی ہٹا دیئے ہیں،اور بغیر کسی ضروری قانونی کاروائی کے بقیہ لائن بےکار چھوڑدی ہے اب مقامی لوگوں نے واپڈا کی اجازت کےبغیر ان کی بچھائی  ہوئی معطل سپلائی لائن سے کھمبے اور تاریں اُتارکرپانی کےجنریٹربجلی لائنوں کےلیےاستعمال کیے ہیں،اوریہ جواز پیش کیا ہے کہ یہ کھمبے اور تاریں چوں کہ اس  علاقے کے لیے مختص تھیں، جن سے اہل علاقے کو فائدہ کوئی نہیں تھا،اور لائن بھی ناکارہ  اورمعطل شدہ تھی، اب اگر وہی تاریں اورکھمبےان سے بغیر پوچھےسب لوگوں کی اتفاق رائے سے اسی علاقے کے لیے حکومت ہی کےمہیا کیے ہوئے پانی والے جنریٹر سے بجلی کی ترسیل کے لیے استعمال ہوں، تو اس میں کیا حرج ہے؟

نیز ان 8سالوں میں سرکاری ادارےواپڈانے بھی کھمبوں اور تاروں کےاستعمال سے منع نہیں کیا ہے۔اب پوچھنایہ ہے:

1- کیا واپڈا کی اجازت کے بغیر ان تاروں اور کھمبوں کو اس محلے کی بجلی کےلیےاستعمال کرنا درست ہے؟

2-پورے محلے میں انہی کھمبوں اور تاروں میں بجلی استعمال کی جا رہی ہےکیا اس سےاستفادےکی گنجائش ہے؟یا کوئی متبادل جائز صورت اگر بن سکتی ہے تو راہ نمائی فرما دیجئے۔

جواب

واضح رہےکہ  جس طرح کسی کی شخصی املاک کااستعمال اس کی اجازت کےبغیردرست نہیں، اسی طرح حکومت کی املاک چاہےقابل انتفاع ہوں یانہ ہوں اس کی اجازت کےبغیراستعمال کرنا ناجائز ہے؛لہٰذاصورتِ مسئولہ میں   مقامی لوگوں کا واپڈا کی اجازت کےبغیر ان کی بچھائی  ہوئی معطل سپلائی لائن سے کھمبے اور تاریں اُتارکرپانی کےجنریٹربجلی لائنوں کےلیےاستعمال کرناشرعاًدرست نہیں ہے،اگرچہ سرکاری ادارےواپڈانےکھمبوں اورتاروں کےاستعمال سےمنع نہ کیاہو،البتہ جوازکی  صورت یہ ہےکہ  مقامی حضرات واپڈا سےان معطل اشیاءوغیرہ کی استعمال کی اجازت لےلیں ،پھراجازت ملنے کےبعدان اشیاء کواپنے استعمال میں لاسکتےہیں۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"ولا يجوز التصرف ‌في ‌ملك ‌الغير بغير إذنه."

(كتاب النكاح، فصل بيان شرائط الجواز والنفاذ، ج:2، ص:234، ط: دار الكتب العلمية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"لا يجوز التصرف ‌في ‌مال ‌غيره بلا إذنه ولا ولايته."

(‌‌كتاب الغصب، مطلب فيما يجوز من التصرف بمال الغير بدون إذن صريح، ج:6، ص:200، ط: سعيد)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"‌ولا ‌يجوز ‌حمل ‌تراب ربض المصر لأنه حصن فكان حق العامة كذا في الوجيز للكردري."

(كتاب الكراهية، الباب الثلاثون في المتفرقات، ج:5، ص:372، ط: دارالفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144505100283

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں