بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سرکاری مال غصب کر لیا ہو تو کیا کرے؟


سوال

 ایک شخص نے دین سے  دوری کے زمانے میں بیس سال پہلے ایک سرکاری ادارے کا مال تلف وغصب کیا تھا، اب وہ اس مال کو اس سرکاری ادارے کو لوٹانا چاہتا ہے، اس کو لوٹانے کا کیا طریقہ ہوگا؟ اگر قانونی گرفت کا اندیشہ ہو تو ادارے کی طرف سے فقراء مستحقین کو بغیر ثواب کی نیت سے دے سکتا ہے، اور سامان جو اس نے تلف وغصب کیا ہے اس کی اس وقت کی قیمت لگائی جائے گی یا موجودہ وقت میں جو اس کی قیمت ہوگی؟

جواب

غصب کردہ مال جب تک اصل مالکان تک پہنچانا ممکن ہو تو اس کا حکم یہ ہی ہے کہ اصل مالکان تک پہنچایا جائے، اور واپس کرتے وقت تفصیل سے آگاہ کرنا بھی ضروری نہیں، کسی بھی عنوان سے واپس کیا جا سکتا ہے اور قانونی گرفت کا محض اندیشہ اس بات سے مانع نہیں کہ وہ اس ادارے کو مال واپس کرے، غصب  شدہ  مال ادارے کو  لوٹانا ہی ضروری ہو گا؛ لہٰذا حکمت کے ساتھ کسی عنوان سے لوٹادے۔

باقی   غصب کردہ چیز کی کون سی قیمت کا اعتبار ہو گا؟  تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر غصب  شدہ چیز ایسی ہے جس کا مثل ملنا مشکل ہو تو غصب  کے وقت کی قیمت کا اعتبار کیا جائے گا،  لیکن اگر غصب شدہ چیز کا مثل ملنا ممکن ہو تو اسی کا مثل لوٹانا ضروری ہو گا۔

الفتاوى الهندية (5/ 119):

"و أما حكمه فالإثم و المغرم عند العلم و إن كان بدون العلم بأن ظن أن المأخوذ ماله أو اشترى عينًا ثم ظهر استحقاقه فالمغرم و يجب على الغاصب رد عينه على المالك و إن عجز عن رد عينه بهلاكه في يده بفعله أو بغير فعله فعليه مثله إن كان مثليًّا كالمكيل و الموزون فإن لم يقدر على مثله بالانقطاع عن أيدي الناس فعليه قيمته يوم الخصومة عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - و قال أبو يوسف -رحمه الله تعالى -: يوم الغصب و قال محمد - رحمه الله تعالى -: يوم الانقطاع، كذا في الكافي.

و إن غصب ما لا مثل له فعليه قيمة يوم الغصب بالإجماع، كذا في السراج الوهاج."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109201040

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں