بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سرکار کی جانب سے دی ہوئی سہولت سے فائدہ اٹھانا


سوال

  میں ایک سرکاری ملازم ہوں ، مجھے سرکاری ہسپتال سے علاج کروانے کی صورت میں میڈیسن کے پیسے کلیم کرنے کی سہولت ہے، میرے والد صاحب کو دل کی بیماری ہے، اب ڈاکٹر نے کہا ہے کہ یہ میڈیسن انہوں نے ساری عمر کھانی ہے،  اب شروع شروع میں تو میں  دو،تین ماہ کے بلز  ڈاکٹر سے سائن سٹیمپ کروا کے کلیم کرتا رہا ہوں۔ لیکن اب ایک ریفرنس سے بلز کے مطابق ہسپتال کی پرچیاں بنا کے 2-3 ماہ کے بلز اسی ہسپتال کے میڈیکل پروفیسر سے سائن سٹیمپ کروا کے کلیم کر لیتا ہوں۔کیونکہ ہمارے نظام میں بہت خرابیاں ہیں۔ ڈاکٹر سائن نہیں کر تے جلد۔ یا چھٹی پر ہو تے ہیں۔ یا ان کا سٹا ف ملنے  نہیں دیتا۔ بلز  سو فیصد جینون ہیں۔ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں  سرکار کی طرف سے یہ سہولت  اگرآپ کے علاوہ آپ کے والد صاحب کو بھی میسر ہو  اور علاج بھی سرکاری ہسپتال  میں کیا جارہا ہو تو سوال میں مذکور طریقہ کار کے مطابق سرکار سے میڈیسن کی رقم وصول کرناجائز ہے اور اگر یہ سہولت صرف آپ کو میسر ہو یا آپ کے والد صاحب کو سرکاری ہسپتال میں میسر ہو لیکن علاج سرکاری ہسپتال سے نہیں کروایا جارہا ہو تو اس صورت میں سرکار سے میڈیسن کی رقم وصول کرنا  جائز نہیں ہے۔اس کے علاوہ اگر کوئی اور صورت  ہو  تو سوال واضح لکھ کر دوبارہ معلوم کرلیں۔

درر الحكام في شرح مجلة الحكاممیں ہے:

" ‌‌(المادة 96) لا يجوز لأحد أن يتصرف ‌في ‌ملك ‌الغير بلا إذنه] لا يجوز لأحد أن يتصرف ‌في ‌ملك ‌الغير بلا إذنه هذه المادة مأخوذة من المسألة الفقهية (لا يجوز لأحد ‌التصرف في مال غيره بلا إذنه ولا ولايته) الواردة في الدر المختار. فعليه إذا أراد شخص أن يبني بناء محاذيا لحائط بناء إنسان فليس له أن يستعمل حائط ذلك الشخص بدون إذنه حتى ولو أذنه صاحب الحائط فله بعدئذ حق الرجوع عن إذنه"

(المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية،المادة:96، ج:1، ص:96،ط:دار الجيل)

و فيه ايضاّ:

"لا يجوز لأحد أن يأخذ مال أحد بلا سبب شرعي هذه القاعدة مأخوذة من المجامع وقد ورد في الحديث الشريف «لا يحل لأحد أن يأخذ متاع أخيه لاعبا ولا جادا فإن أخذه فليرده» فإذا أخذ أحد مال الآخر بدون قصد السرقة هازلا معه أو مختبرا مبلغ غضبه فيكون قد ارتكب الفعل المحرم شرعا؛ لأن اللعب في السرقة جد فعلى ذلك يجب أن ترد اللقطة التي تؤخذ بقصد امتلاكها أو المال الذي يؤخذ رشوة أو سرقة أو غصبا لصاحبها عينا إذا كانت موجودة وبدلا فيما إذا استهلكت"

(المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية،المادة:97، ج:1، ص:98،ط:دار الجيل)

فتاوی شامی ميں ہے:

"ونقل في القنية عن الإمام الوبري أن من له حظ في ‌بيت ‌المال ظفر بمال وجه لبيت المال فله أن يأخذه ديانة"

(كتاب الجهاد، مطلب:فيمن له حق في بيت المال و ظفر بشيئ من بيت المال،ج:4، ص:159 ايچ ايم سعيد كمپنی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509100049

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں