بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سرکار کا زمین کے سالانہ آبیانہ وصول کرنے کی صورت میں عشر کا حکم


سوال

جس زمین کا سرکار سالانہ آبیانہ وصول کرتا ہے ، اس سال آب پاشی کی ضرورت نہ پڑی بارشوں کی وجہ سے لیکن سرکار نے پھر بھی آبیانہ وصول کیا ہے تو ایسی زمین میں عشر ہوگا یا نصف عشر؟

جواب

واضح رہے کہ  جس عشری  زمین کو ایسے پانی سے سیراب کیا جائے    جس پر خرچہ آتا ہوتو ایسی زمینوں کی پیداوار میں عشر کے بجائے نصفِ عشر کی ادائیگی لازم ہوتی ہے۔  لہذا  زمین کو   نہری پانی  سے سیراب کرنے کی صورت میں سرکار کو  آبیانہ کے نام سے رقم ادا  کرنی پڑتی ہے، اور سرکار  آبیانہ نہری نظام کی بقا اور انتظام کے لیے  وصول کرتی ہے، اور یہ زمین کی مؤنت (خرچہ)  میں سے ہے، لہذا ایسی زمین  کی پیداوار پربھی نصف عشر لازم ہوتا ہے۔

لہذا صورت مسئولہ میں  اگر مذکورہ  زمین کا سرکار سالانہ آبیانہ وصول کرتی ہے ، اور اس سال  بارشوں کی کثرت کی وجہ سے  زمین بارش کے پانی سے سیراب ہوئی لیکن سرکار نے آبیانہ وصول کیا تو  اس صورت میں    بھی چوں کہ  خرچہ آیا ہے؛ اس لیے اس   زمین کی پیداوار میں بھی نصف عشر (بیسواں حصہ) لازم ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) يجب (نصفه في مسقي غرب) أي دلو كبير (ودالية) أي دولاب لكثرة المؤنة وفي كتب الشافعية أو ‌سقاه ‌بماء ‌اشتراه وقواعدنا لا تأباه.

وفي الرد: (قوله: وقواعدنا لا تأباه) كذا نقله الباقاني في شرح الملتقى عن شيخه البهنسي؛ لأن العلة في العدول عن العشر إلى نصفه في مستقى غرب ودالية هي زيادة الكلفة كما علمت وهي موجودة في شراء الماء ولعلهم لم يذكروا ذلك؛ لأن المعتمد عندنا أن شراء الشرب لا يصح وقيل إن تعارفوه صح."

(کتاب الزکوۃ، باب العشر، 2/ 328، ط:دار الفكر)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144412101420

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں