بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سرکاری خرچہ پر حج کرنے کا حکم


سوال

احقر ایک سرکاری ادارے جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی (JSMU) میں تدریس سے وابستہ ہے۔ ہمارا ادارہ ہر سال بذریعہ قرعہ اندازی گریڈ 1 سے گریڈ 16 تک کام کرنے والے دو ملازمین کو ان کی مالی حیثیت سے قطع نظر سر کاری گرانٹ سے حج پر بھجواتا ہے۔ جس پر آنے والے تمام اخراجات بمطابق سرکاری رقم جو اس سال حج کے لیے متعین کی جاتی ہے، چیک یا پے آڈر کی شکل میں براہ راست بینک میں جمع کروائے جاتے ہیں۔

مجھے اپنے ادارے کی جانب سے چیر مین حج کمیٹی نامزد کیا گیا ہے۔ ہمیں اس حوالے سے کچھ رہنمائی درکار ہے جوابات دے کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔

سوال 1۔  کیا ایک سرکاری یونیورسٹی اپنے ملازمین کو بذریعہ قرعہ اندازی حج پر بھجوا سکتی ہے ، جس کے اخراجات سرکاری گرانٹ (Grant in Aid) سے ادا کیے جاتے ہیں؟

سوال 2۔  کیا اس طرح سے حج ادا کرنے سے ان ملازمین کا فریضہ حج ادا ہو جاتا ہے، خواہ اس وقت ان کی مالی حیثیت کیسی بھی ہو ؟

جواب

1۔ صورت مسئولہ میں  جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کی انتظامیہ اپنے ملازمین کو  قرعہ اندازی کی بنیاد پر سرکاری خرچہ پر  حج پر بھجوا سکتی ہے، تاہم قرعہ اندازی میں کسی ایسے فرد کو شامل کرنا جو مذکورہ یونیورسٹی کا ملازم نہ ہو  ، اور اسے سرکاری خرچہ پر حج پر بھیجنا دھوکہ دہی و دیگر ملازمین کی حق تلفی کی وجہ سے جائز نہیں ہوگا۔

2۔ قرعہ اندازی میں نام نکلنے کی صورت میں جو شخص حج کے لیے جائے گا، اس کا فریضہ حج ادا ہوجائے گا، زندگی میں دوبارہ حج کرنا فرض نہ ہوگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(وأما فرضيته) فالحج فريضة محكمة ثبتت فرضيتها بدلائل مقطوعة حتى يكفر جاحدها، وأن لا يجب في العمر إلا مرة كذا في محيط السرخسي، وهو فرض على الفور، وهو الأصح فلا يباح له التأخير بعد الإمكان إلى العام الثاني كذا في خزانة المفتين ... الفقير إذا حج ماشيا ثم أيسر لا حج عليه هكذا في فتاوى قاضي خان."

(كتاب المناسك، الباب الأول في تفسير الحج، وفرضيته ووقته وشرائطه، وأركانه وواجباته وسننه وآدابه، ومحظوراته، ١ / ٢١٦ - ٢١٧، ط: دارالفكر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144509100027

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں