بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سرجری سے متعلق شرعی حکم


سوال

میں علم طب و جراحی کا طالب علم ہوں،ایک قسم کا تخصص جو شعبۂ جراحی میں ہے ، جس کا تعلق لوگوں کے جلے ہوۓ جسمانی حصوں کو ، اور اگر جلد اور چہرے میں کوئی نقص ہے تو اس کو ٹھیک کرنا ہے ، اس کو پلاسٹک سرجری کہتے ہیں ۔

اس قسم کے ماہر جراح سے عورتیں اپنے ہونٹ بڑے بھی کرواتی ہیں اور اپنے پستان بڑے یا چھوٹے بھی کروالیتی ہیں، کچھ عورتیں مخصوص حالات میں اپنے فرج کو تنگ کروالیتی ہیں اور کچھ اپنے کولہوں کو بھی بڑا یا چھوٹا کرواتی ہیں ، کیا یہ سب کام کرنا جائز ہیں؟ ان میں کونسے کام جائز اور کون سے  کام ناجائز ہیں؟ ایک ڈاکٹر کو دوران ملازمت کیا کرنا چاہیے؟

جواب

سرجری جسمانی اعضاء میں سے کسی بھی عضو کو بڑا کرنے کے لیے ہو یا چھوٹا کرنے کے لیے، اگر واقعتاً کسی بیماری   یا کسی ایسے  عیب(چاہے پیدائشی ہو یا کسی حادثے کے نتیجے میں لاحق ہوا ہو)  کو دور کرنے کے لیے ہو    جس سےغیر معمولی  جسمانی    یا روحانی تکلیف ہوتی ہو،تو چوں كه  شرعی ضرورت اور حاجت کی وجہ  سےیہ اللہ  تعالیٰ کی بنائی ہوئی خلقت کو بدلنے کے تحت  داخل نہیں ہے اس ليے  ایسی صورتوں میں سرجری کرنا اور کروانا  جائز ہے ،کیوں کہ ضرورت اور حاجت کے وقت بعض ممنوع اشیاء بھی جائز ہوجاتی ہیں،(جسمانی تکلیف سے مراد یہ ہے کہ اس عضو میں غیر معمولی تکلیف  ہو یا اس کے فطری عمل میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا ہوتی ہو،مثلا:ناک اتنا دبا ہوا ہو کہ جس سے سانس لینے  میں دشواری ہوتی ہو،وغیرہ ، اور روحانی تکلیف کا مطلب یہ ہے کہ وہ عیب اس طرح کا ہو کہ اس  کی وجہ سے انسان   دوسروں سے الگ دکھتا ہو ، اوراسے مذاق و استہزاء کا نشانہ بنایا جاتا ہو )

 اور اگر سرجری کا مقصد صرف حصولِ تزیین  ، فیشن پرستی اور اظہارِ حسن  ہو (جیسا کہ آج کل رائج ہے)تاکہ اعضاء کی ساخت اور بناوٹ میں مناسب تبدیلی کرکےانسان کی ظاہری ہیئت کو خوبصورت اور پر کشش بنایا جاۓ،تو  یہ ناجائز اور حرام ہے، کیوں کہ یہ سب تغیرات انسان کے فطری تغیرات ہیں، جو عمر ڈھلنے کے ساتھ ساتھ لازماً پیدا ہوتے ہیں، جن کا سامنا ہر انسان کو کرنا پڑتا ہے،لہٰذا خواتین کا اپنے مخصوص اعضاء کو چھوٹا یا بڑا کروانا  شریعت کی رُو سے جائز نہیں ، اور حدیث میں ایسی عورتوں پر لعنت فرمائی گئی ہے،کیوں کہ اس قسم کی سرجری  کا مقصد نہ تو کسی قسم کے جسمانی ضرر کو دور کرنا ہوتا ہے اور نہ روحانی اور معنوی ضرر کو ، بلکہ اس کا مقصد دراصل حسن اور کم عمری کا   اظہار ہوتا ہے،   چاہے  شوہر کے لیے ہو یا کسی اور کے لیے، کیوں کہ حسن میں اضافہ کرنے کی غرض سے  سرجری کروانا  حدیث کی رو سے دھوکہ دہی پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے، اس لیے کہ یہ سرجری کسی شرعی ضرورت اور حاجت کی بناء پر نہیں بلکہ  اپنی خواہش کے مطابق جسمانی اعضاء میں تبدیلی  اور افزائشِ حسن کے لیے ہوتی  ہے ،جس سے اللہ تعالی کی خلقت میں  بلا مقصد اور بلا فائدہ تبدیلی  اور دوسروں کو دھوکہ دہی لازم آتی ہے، اور چوں کہ یہ تمام تغیرات نفس و شیطان کی پیروی میں ہوتے ہیں  اس لیے  قرآن و حدیث میں  اصلِ خلقت میں تغیر سے  سختی سےمنع فرمایا گیاہے۔

چناں چہ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے اس فعل کو شیطانی فعل قرار دیا ہے:

"وَّ لَاُضِلَّنَّهُمْ وَ لَاُمَنِّیَنَّهُمْ وَ لَاٰمُرَنَّهُمْ فَلَیُبَتِّكُنَّ اٰذَانَ الْاَنْعَامِ وَ لَاٰمُرَنَّهُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰهِؕ."

ترجمه:"اور ميں ان كو گمراه كروں گا،اور ميں ان كو ہوسیں دلاؤں گا ،اور ميں ان كو تعليم دوں گا ،جس سے وه چارپاؤں كے كانوں كوتراشا كریں گے ،اور ميں ان كو تعليم دوں گا ،جس سے  وه الله تعالیٰ کی بنائی ہوئی صورت کو بگاڑا کریں گے."

 (بیان القرآن،157/2،ط:میر محمد)

اسی طرح  گناہ کے کام میں معاونت کرنے اور  اس میں سبب بننے سے بھی منع کیا گیا  ہے،اور نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرنے اور گناہ کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرنے کا حکم دیا  گیاہے۔

چناں چہ  قرآنِ مجید میں فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

"وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ."

ترجمه:"اور نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی اعانت کرتے رہواور گناہ اور زیادتی میں ایک دوسرے کی اعانت مت کرو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرا کرو بلاشبہ اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والے ہیں. "

(بیان القرآن،444/1،ط: رحمانیہ)

 تفسیر ِقرطبی اورصحیح مسلم   میں ہے:

" إني خلقت عبادي حنفاء كلهم وأن الشياطين أتتهم فاجتالتهم عن دينهم فحرمت عليهم ما أحللت لهم وأمرتهم أن يشركوا بي ‌ما ‌لم ‌أنزل ‌به سلطانا وأمرتهم أن يغيروا خلقي."

( قرطبي :136/7،ط:مؤسسة الرسالة / مسلم:کتاب الجنة وصفة نعیمها و أهلها،‌‌باب الصفات التي يعرف بها في الدنيا أهل الجنة وأهل النار،385/2،ط:قدیمي)

ترجمہ:" میں نے اپنے بندوں کو موحد پیدا کیا (یعنی پیدائش کے وقت ان کی فطرت میں شرک نہیں تھا بلکہ توحید تھی)پھر شیطان(خواہ وہ انسان ہوں یا جن) ان کے پاس آۓ اور ان کو ان کے دینِ فطرت سے پھیر دیا اور ان پر وہ چیزیں حرام کردیں جو میں نے ان کے لیۓ حلال کی تھیں  اور ان کو حکم دیا کہ وہ میرے ساتھ ان چیزوں کو شریک ٹھہرائیں  جن کے بارے میں میں نے کوئی شرعی دلیل  و حجت نازل نہیں کی اور انہوں نے ان کو حکم دیا کہ وہ خلق و پیدائش کو بدل دیں ."

تفسیرِ معالم التنزيل میں ہے:

"ولآمرنهم فليغيرن ‌خلق ‌الله} قال ابن عباس رضي الله عنهما والحسن ومجاهد وسعيد بن المسيب والضحاك: يعني دين الله، نظيره قوله تعالى: "لا تبديل لخلق الله" (الروم -30) أي: لدين الله، يريد وضع الله في الدين بتحليل الحرام وتحريم الحلال.

وقال عكرمة وجماعة من المفسرين: فليغيرن ‌خلق ‌الله بالخصاء والوشم وقطع الآذان حتى حرم بعضهم الخصاء وجوزه بعضهم في البهائم، لأن فيه غرضا ظاهرا."

(289/2،ط:دار طیبة)

تفسیرِ کبیر میں ہے:

"قوله ولآمرنهم فليغيرن ‌خلق ‌الله وللمفسرين هاهنا: قولان: الأول: أن المراد من تغيير ‌خلق ‌الله تغيير دين الله، وهو قول سعيد بن جبير وسعيد بن المسيب والحسن والضحاك ومجاهد والسدي والنخعي وقتادة................................................................ القول الثاني: حمل هذا التغيير على تغيير أحوال كلها تتعلق بالظاهر، وذكروا فيه وجوها الأول: قال الحسن: المراد ما روى عبد الله بن مسعود عن النبي صلى الله عليه وسلم: «لعن الله الواصلات والواشمات. قال: وذلك لأن المرأة تتوصل بهذه الأفعال إلى الزنا. الثاني: روي عن أنس وشهر بن حوشب وعكرمة وأبي صالح أن معنى تغيير ‌خلق ‌الله هاهنا هو الإخصاء وقطع الآذان وفقء العيون."

(223/11،ط:دار احياء التراث العربي)

تفسيرِ مظہری میں ہے:

"وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ ‌خَلْقَ ‌اللَّهِ عن وجهه صورة  أو صفة ويندرج فيه فقوعين الحامى وخصاء العبيد والوشيم والوشير والمثلة."

(239/2،رشیدیة)

تفسیر ِقرطبی میں ہے:

"وقالت طائفة: الإشارة بالتغيير إلي الوشم وما جري مجراه من التصنع للحسن، قاله إبن مسعود والحسن."

(142/7،ط:مؤسسة الرسالة )

وفیہ ایضاً:

"واختلف في المعنى الذي نهي لأجلها، فقيل: لأنها من باب التدليس. وقيل: من باب تغيير خلق الله تعالى، كما قال ابن مسعود، وهو أصح."

(144/7،ط:مؤسسة الرسالة)

صحیح مسلم میں ہے:

"عن عبد الله. قال:‌لعن ‌الله الواشمات والمستوشمات، والنامصات والمتنمصات، والمتفلجات للحسن المغيرات خلق الله."

ترجمہ:"سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ اللہ تعالیٰ نے  لعنت فرمائی ہے:  جسم  گودنے والی اور گدوانے والیوں پر اورچہرےکے بال صاف کرنے والی  اور کروانے والیوں پر اورخوبصورتی کے لیے  دانتوں کےدرمیان کشادگی کرنے والیوں پر  (تاکہ کم سِن معلوم ہوں) اللہ کی خلقت کو  بدلنے والیوں پر."

(کتاب اللباس والزینة،باب تحریم فعل الواصلة والمستوصلة إلخ،212/2، ط:رحمانیة)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"قال النووي: فيه إشارة إلى أن الحرام هو المفعول ‌لطلب ‌الحسن، أما لو احتاجت إليه لعلاج أو عيب في السن ونحوه فلا بأس به."

(کتاب اللباس،باب الترجل،الفصل الاول،295/8،ط:إمدادية)

وفیہ ایضاً:

"وعن أبي ريحانة - رضي الله عنه - قال: " «نهى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عن عشر: عن الوشر، والوشم ......................إلخ

(قال: نهى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عن عشر) : أي خصال (عن الوشر)  ......وهو على ما في النهاية تحديد الأسنان وترقيق أطرافها، تفعله المرأة الكبيرة تتشبه بالشواب.قال بعضهم وإنما نهى عنه لما فيه من التغرير وتغيير ‌خلق ‌الله تعالى)."

(کتاب اللباس، الفصل الثانی،259/8،ط:امدادیة)

بذل المجہود میں ہے:

"فإن الظاهر أن المراد بتغيير خلق الله أن ما خلق الله سبحانه وتعالى حيوانا على صورته المعتادة لا يغير فيه، لا أن ما خلق على خلاف العادة مثلا كاللحية للنساء أو العضو الزائد فليس تغييره تغييرا ‌لخلق ‌الله."

 (أول کتاب الترجل،باب في صلة الشعر،197/12،ط:دار البشائر الإسلامیة)

سننِ ترمذی میں ہے:

"عن عرفجة بن أسعد قال: أصيب ‌أنفي يوم الكلاب في الجاهلية، فاتخذت أنفا من ورق، فأنتن علي «فأمرني رسول الله صلى الله عليه وسلم أن أتخذ أنفا من ذهب»."

ترجمہ:"سیدنا عرفجہ بن اسعد رضی اللہ عنی فرماتے ہیں کہ: زمانہ جاہلیت میں یوم کلاب کی لڑائی میں میری ناک کٹ گئی تھی ،تو میں نے چاندی کی ناک بنوا کر لگالی ،لیکن اس میں بدبو پیدا ہوگئی، جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مجھے سونے کی ناک استعمال کرنے  کا حکم دیا."

(أبواب اللباس،باب ما جاء في شد الأسنان بالذهب،439/1،ط:رحمانیة)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"لا بأس ‌بقطع ‌العضو إن وقعت فيه الآكلة لئلا تسري كذا في السراجية. لا بأس بقطع اليد من الآكلة وشق البطن لما فيه كذا في الملتقط.

 إذا أراد الرجل أن يقطع إصبعا زائدة أو شيئا آخر قال نصير - رحمه الله تعالى - إن كان الغالب على من قطع مثل ذلك الهلاك فإنه لا يفعل وإن كان الغالب هو النجاة فهو في سعة من ذلك رجل أو امرأة، قطع الإصبع الزائدة من ولده قال بعضهم لا يضمن ولهما ولاية المعالجة وهو المختار ......................

 من له سلعة زائدة يريد قطعها إن كان الغالب الهلاك فلا يفعل وإلا فلا بأس به كذا في خزانة المفتين............................

 ولا بأس بشق المثانة إذا كانت فيها حصاة وفي الكيسانيات في الجراحات المخوفة والقروح العظيمة والحصاة الواقعة في المثانة ونحوها إن قيل قد ينجو وقد يموت أو ينجو ولا يموت يعالج."

(كتاب الكراهيه،‌‌الباب الحادي والعشرون فيما يسع من جراحات بني آدم والحيوانات،360/5،ط:ماجدیة)

الاشباہ والنظائر میں ہے:

"‌‌السادسة: الحاجة تنزل منزلة الضرورة، عامة كانت أو خاصة،

ولهذا: جوزت الإجارة على خلاف القياس للحاجة وكذا قلنا لا تجوز إجارة بيت بمنافع بيت لاتحاد جنس المنفعة فلا حاجة بخلاف ما إذا اختلف، ومنها: ضمان الدرك جوز على خلاف القياس. ومن ذلك: جواز السلم على خلاف القياس؛ لكونه بيع المعدوم دفعا لحاجة المفاليس، ومنها جوازالاستصناع للحاجة."

(ص:46،ط:سعید)

اسی طرح دوسری بڑی خرابی  اس میں یہ لازم آتی ہے کہ بلا ضرورت ستر کھولا جاتا ہے ،جب کہ عورت کے لیے ناف سے لے کر  گھٹنوں کے نیچے تک  کاحصہ بلاضرورت کسی دوسری عورت کے سامنےبھی کھولنا  جائز نہیں  ہے،چہ جائیکہ  کسی مرد کے سامنے کھولا جاۓ،  کسی کے ستر کو دیکھنا یا اپنا ستر کسی کو دکھانا دونوں ناجائز اور حرام ہیں،لہذا  اس وجہ سے بھی عورت  کا    کسی مرد کے سامنےبلا ضرورت شرمگاہ  اور دوسرے مخفی اعضاء کوکھولنا  شرعا  جائز نہیں ہے،نیزعقلًا بھی یہ انتہائی قبیح ،بے شرمی اور بے غیرتی  کی بات ہے ۔

مشکاۃ  المصابیح  میں ہے:

"وعن الحسن مرسلًا قال: بلغني أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لعن الله الناظر والمنظور إليه."

  (کتاب النکاح،‌‌باب النظر إلى المخطوبة وبيان العورات،الفصل الثالث، 278/2، ط:رحمانیة)

ترجمہ:" حضرت حسن سے مرسلاً روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: دیکھنے والے اور جسے دیکھا جائے اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو۔"

مرقاة المفاتيح میں ملا علی قاری  اس حدیث کی شرح میں  فرماتےہیں:

"وعن الحسن) أي البصري (مرسلا قال: بلغني) أي عن الصحابة (أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قال: ‌لعن ‌الله ‌الناظر) أي بالقصد والاختيار (والمنظور إليه) أي من غير عذر واضطرار، وحذف المفعول ليعم جميع ما لا يجوز النظر إليه تفخيما لشأنه (رواه البيهقي في شعب الإيمان)."

(كتاب النکاح،باب النظر إلى المخطوبة وبيان العورات، الفصل الثالث، 264/6، ط:العلمیة)

وفیہ ایضاً:

"وعن أبي سعيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا ينظر الرجل إلى عورة الرجل ولا المرأة إلى عورة المرأة."

(کتاب النکاح،‌‌باب النظر إلى المخطوبة وبيان العورات،‌‌ الفصل الأول، 276/2، ط:رحمانية)

ترجمہ:" حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :کوئی مرد کسی دوسرے مرد کے ستر کی طرف نہ دیکھے، کوئی عورت کسی دوسری عورت کے ستر کی طرف نہ دیکھے ۔ "

وفیہ ایضا:

"وعن علي رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال له: «يا علي لا تبرز فخذك ولا تنظر إلى فخذ حي ولا ميت» . رواه أبو داود وابن ماجه."

ترجمہ:"حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو فرمایا:اے علی،(کسی اجنبی کے سامنے) اپنے ران کو نہ کھولو اور نہ ہی کسی زندہ یا مردہ کی ران کو دیکھو۔"

 (کتاب النکاح،‌‌باب النظر إلى المخطوبة وبيان العورات،الفصل الثاني، 277/2، ط:رحمانية)

 فتاوی شامی میں ہے:

"(و تنظر المرأة المسلمة من المرأة كالرجل من الرجل )، وقيل: كالرجل لمحرمه، والأول أصح. سراج. ( وكذا ) تنظر المرأة ( من الرجل ) كنظر الرجل للرجل ( إن أمنت شهوتها فلو لم تأمن أو خافت أو شكت حرم استحساناً كالرجل هو الصحيح في الفصلين. تاترخانية معزياً للمضمرات. ( والذمية كالرجل الأجنبي في الأصح، فلاتنظر إلى بدن المسلمة ) مجتبى ( وكل عضو لا يجوز النظر إليه قبل الانفصال لا يجوز بعده) ولو بعد الموت كشعر عانة وشعر رأسها وعظم ذراع حرة ميتة وساقها وقلامة ظفر رجلها دون يدها."

(كتاب الحظر والإباحة،‌‌فصل في النظر والمس،371،72/6، ط:سعید)

كتاب الاصل لمحمد الشیبانی میں ہے:

"والرجل من الرجل لا ينبغي له أن ينظر منه إلا ما تنظر  منه المرأة. ولا ينبغي له أن ينظر من الرجل إلى ما بين  سرته إلى ركبته ولا بأس بالنظر إلى سرته. ويكره النظر منه إلى ركبته. وكذلك المرأة من المرأة."

(کتاب الاستحسان، 237/2، ط:دار ابن حزم)

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"الأصل أن ‌النظر ‌إلى ‌العورة حرام."

(کتاب الخنثی،105/30 ط:دارالمعرفة)

لہٰذااگر کسی معالج نے اس غیر شرعی طریقے  پیسےسے کماۓ ہیں  ،اور اب احساس ہونے کے بعد اس کی تلافی کرنا چاہتاہے، تو پہلے تو اللہ  تعالی ٰ سے اپنے اس عمل پر معافی مانگے،پھراس دوران جتنے پیسے کماۓ ہیں  چوں کہ  حرام ہونے کی وجہ سے ان پیسوں کا استعمال ناجائز تھا  ،اس لیے اب تلافی کی غرض سے بغیر ثواب کی نیت کے ایسی کمائی صدقہ کردے،اگر پیسوں  کی مقدار حتمی طور پر معلوم نہیں ہےتو معالج پر لازم ہے کہ   مذکورہ طریقہ پر کمائی گئی رقم کی مقدار کے بارے میں خوب غور وفکر کرے ،غور وفکر کے بعد جس رقم پر اس کا غالب گمان ہوجائے  کہ اس سے زیادہ رقم کسی صورت نہیں ہوسکتی ،اتنی رقم  مستحق لوگوں پر  ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کردے۔

مرقاة المفاتيح میں ہے:

"قال النووي: فيه تصريح بتحريم كتابة المترابيين والشهادة عليهما وبتحريم الإعانة على الباطل."

(کتاب البیوع،باب الربا،الفصل الأول،59/6،ط:إمدادیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"وما كان سببا لمحظور فهو ‌محظور."

(كتاب الحظر والإباحة،6 /350،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"والحاصل أنه إن علم ‌أرباب ‌الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه، وإن كان مالا مختلطا مجتمعا من الحرام ولا يعلم أربابه ولا شيئا منه بعينه حل له حكما، والأحسن ديانة التنزه عنه۔۔۔۔۔۔ومفاده الحرمة وإن لم يعلم أربابه وينبغي تقييده بما إذا كان عين الحرام ليوافق ما نقلناه، إذ لو اختلط بحيث لا يتميز يملكه ملكا خبيثا، لكن لا يحل له التصرف فيه ما لم يؤد بدله."

(کتاب البیوع،باب البیع الفاسد، مطلب فيمن ورث مالا حراما،5/99،ط:سعید)

الاختیار لتعلیل المختار میں ہے:

"والملك الخبيث ‌سبيله ‌التصدق به، ولو صرفه في حاجة نفسه جاز. ثم إن كان غنيا تصدق بمثله، وإن كان فقيرا لا يتصدق."

(كتاب  الغصب ،568/2،ط:الرسالة العالمیة)

خلاصہ یہ ہے کہ انسان  کے پاس اس کا جسم   بطورِ نعمت  اللہ کی امانت ہے،اللہ نے اعضاۓ انسانی سے مختلف منافع وابستہ کرکے انہیں مختلف کاموں میں لگایا ہوا ہے ، اور اسی وجہ سے  انسان کو ان  اعضاء کو  صرف ان کے مفوضہ کاموں میں  ہی استعمال کرنے کا اختیار دیا گیا ہے، اس کے بر خلاف جو لوگ اپنی مرضی اور من چاہی خواہشات کی بناء پر اپنے جسم کی خلقت اور ہیئت میں  تبدیلی لانے کے لیے سرجری کرواتے ہیں ، ان کا عمل سراسر اسلام کے منافی ہے، اس لیے شرعی نقطہ نظر سے یہ ناجائز ہے، البتہ  اوپر ذکر کردہ تفصیل کے مطابق  ایک صورت  اس حکم سے مستثنیٰ ہے اور وہ  یہ کہ کسی عضو  کی  ہیئت  عام قانونِ فطرت کے خلاف ہو یا اس  عضو کے فطری عمل میں دشواری پیدا ہورہی ہو، تو ایسی صورت میں پلاسٹک سرجری کے ذریعے  اس عضو کی درستگی  کروانا جائزہے۔

 مذکورہ تفصیل کی رُوسے معالج پر لازم ہے کہ شریعت کے دوسرے شعبوں کی طرح لازماً  اس شعبے میں بھی جائز  وناجائز احکام کا علم  حاصل کرے  (اسی طرح صحت اور بیماری کی حالت میں عبادات کے مسائل واحکام کا علم بھی رکھے)اور سرجری کرنے سے پہلے مکمل طور پر معلوم ہوجانے کے بعد ہی کوئی قدم اٹھاۓ، بغیر کسی  شرعی عذر کے  سرجری کرنا اور کروانا    دونوں حرام ہیں،  اس لیے سرجری سے پہلے  مرض کی نوعیت  کے بارے میں مکمل طور پر صحیح  معلومات حاصل کرکے  ہی سرجری کرنی چاہیے۔

 نیز یہ بھی واضح رہے کہ علاج کی غرض سے عورت کا خواتین یا مرد ڈاکٹر کے پاس جانا جائز ہے، البتہ مرد ڈاکٹر کے سامنے پردے کامکمل اہتمام ہونا چاہیے،اور اگر خواتین کے علاج یا آپریشن کے لیے کوئی خاتون ڈاکٹر میسر ہو تو اس صورت میں مرد ڈاکٹر سے علاج معا لجہ یا آپریشن کروانے کے لیے ستر کھولنے کی بالکل  اجازت نہیں ہے، بلکہ ایسی صورت میں اگر علاج یا آپریشن کے لیے ستر کھولنا ناگزیر ہو تو خاتون ڈاکٹر سےہی علاج یا آپریشن کروانا ضروری ہوگا، اورخاتون ڈاکٹر کے سامنے بقدرِ ضرورت ستر کھولنے کی اجازت ہوگی، البتہ اگر کسی جگہ خواتین ڈاکٹر زموجود نہ ہوں اور مرد ڈاکٹر سے علاج معالجہ یا سرجری کروانا ناگزیرہو تو ضرورت کے بقدر مرد ڈاکٹر کے سامنے بھی  جسم کا وہ حصہ کھولنے کی  گنجائش ہے،  تاہم مرد ڈاکٹر کو چاہیے کہ وہ حتی الامکان نگاہیں پست رکھے،ضرورت سے زائد حصے کو نہ تو کھولے نہ دیکھے اور نہ ہی چھوئے،اسی طرح اگر  خاتون ڈاکٹر  بھی موجود ہو ،لیکن اسے مہارت نہ ہو، تو ایسی صورت میں وہ خاتون ڈاکٹر عورت کے پاس رہے،  اور مرد ڈاکٹر پردے میں رہ کر  ضرورت کے مطابق رہنمائی کرتا رہے۔  

فتاوی شامی میں ہے:

"ينظر) الطبيب (إلى موضع مرضها بقدر الضرورة) إذ الضرورات تتقدر بقدرها وكذا نظر قابلة وختان وينبغي أن يعلم امرأة تداويها لأن نظر الجنس إلى الجنس أخف.

(قوله وينبغي إلخ) كذا أطلقه في الهداية والخانية. وقال في الجوهرة: إذا كان المرض في سائر بدنها غير الفرج يجوز النظر إليه عند الدواء، لأنه موضع ضرورة، وإن كان في موضع الفرج، فينبغي أن يعلم امرأة تداويها فإن لم توجد وخافوا عليها أن تهلك أو يصيبها وجع لا تحتمله يستروا منها كل شيء إلا موضع العلة ثم يداويها الرجل ويغض بصره ما استطاع إلا عن موضع الجرح اه ،فتأمل والظاهر أن " ينبغي " هنا للوجوب."

(كتاب الحظر والإباحة،‌‌فصل في النظر والمس،370،71/6،ط:سعيد)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"‌ويجوز ‌النظر إلى الفرج للخاتن وللقابلة وللطبيب عند المعالجة ويغض بصره ما استطاع، كذا في السراجية..........................

امرأة أصابتها قرحة في موضع لا يحل للرجل أن ينظر إليه لا يحل أن ينظر إليها لكن تعلم امرأة تداويها، فإن لم يجدوا امرأة تداويها، ولا امرأة تتعلم ذلك إذا علمت وخيف عليها البلاء أو الوجع أو الهلاك، فإنه يستر منها كل شيء إلا موضع تلك القرحة، ثم يداويها الرجل ويغض بصره ما استطاع إلا عن ذلك الموضع، ولا فرق في هذا بين ذوات المحارم وغيرهن؛ لأن النظر إلى العورة لا يحل بسبب المحرمية، كذا في فتاوى قاضي خان."

(كتاب الكراهية،الباب الثامن فيما يحل للرجل النظر إليه وما لا يحل له،330/5،ط:رشيدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409101194

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں