بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

صریح الفاظ کے ساتھ تین دفعہ طلاق دینے کا حکم


سوال

میری ساس میرے اور میرے شوہر کے درمیان جدائی چاہتی ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ہم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرتے ہیں اور ہمارے اچھے تعلقات ہیں، اس لیے میری ساس کو خدشہ ہے کہ ایسا نہ ہو کہ میرا بیٹا بیوی کا ہی نہ رہ جائے اور مجھے کہی چھوڑ نہ دے، وہ ہر وقت میرے شوہر کو تنگ کرتی رہتی ہے،  اور اس کو کہتی رہتی ہے کہ اپنی بیوی کو طلاق دے دو۔ یکم نومبر کو میرے شوہر نے  اپنی والدہ کی وجہ سے غصہ میں  واٹس ایپ پر وائس میسج کیا، جس میں اس نے یہ الفاظ ادا کیے تھے کہ: "اس رنڈی کو طلاق ہے، طلاق ہے، طلاق ہے، اس رنڈی کوطلاق ہی دے گا ابھی تیرے سامنے" اب میں اپنے میکے آئی ہوں اور چھ ماہ کی حاملہ ہوں۔

اب دریافت یہ کرنا ہے کہ مذکورہ الفاظ سے طلاق واقع ہوگئی ہے یا نہیں؟ اور اب ہمارے لیے ایک ساتھ رہنے کی کوئی گنجائش ہے؟  جب کہ میرا شوہر مجھے کبھی بھی طلاق نہیں دینا چاہتا تھا، صرف اپنی والدہ کی باتوں سے تنگ آکر اس نے غصہ کی حالت میں یہی الفاظ ادا  کیے ہیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں ب   سائلہ کے شوہر  نے یہ الفاظ اد ا کیے کہ: " اس رنڈی کو طلاق ہے، طلاق ہے، طلاق ہے" تو اسی وقت سائلہ پر تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں ، سائلہ اپنے شوہر   پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہو چکی ہے،نکاح ختم ہو چکا ، اب رجوع جائز نہیں اور دوبارہ نکاح بھی نہیں ہو سکتا،اب سائلہ اپنی عدت ( بچہ  کی پیدائش  تک )گزار کر دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے۔

البتہ اگر سائلہ اپنی عدت گزار کر کسی دوسرے شخص سے نکاح کرے اور اس سے صحبت (جسمانی تعلق)ہوجائے، اس کے بعد وہ دوسرا شوہر اسے طلاق دیدے ،یا اس کا انتقال ہوجائے ،تو اس کی عدت گزار کر اپنے سابقہ شوہر کے ساتھ نکاح کرسکتی ہے۔

واضح رہے کہ طلاق کے الفاظ غصے میں ادا کیے جائیں پھر بھی طلاق ہوجاتی ہے۔اگر شوہر نے اپنی والد ہ کے بھڑکانے پر الفاظ ادا کیے ہیں تو والدہ  دوسروں کا گھر برباد کرنے کی وجہ سے سخت گناہ گار ہے، تاہم شوہر نے چوں کہ خود الفاظ ادا کیے ہیں اس لیے طلاقیں واقع ہیں اور رشتہ ختم ہوچکا ہے جیسا کہ بیان کیا گیا۔

قرآن مجید میں ہے:

"فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُۥ مِنۢ بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ"

(سورۃ البقرۃ، پارہ 2/ایت نمبر230)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"و إن كان الطلاق ثلاثًا في الحرة و ثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجًا غيره نكاحًا صحيحًا و يدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية".

(کتاب الطلاق، باب فیما تحل بہ المطلقہ/ج1/ص473/ط،دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100657

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں