بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ساری جائیداد کسی ایک بیٹے کے نام کرنے کا حکم


سوال

 کیا والدین يا صرف ماں یا صرف باپ اپنے دو بیٹوں میں سے کسی ایک بیٹے کے نام ساری جائیداد کر سکتی/سکتا ہے؟ جو کے اُس کے شوہر/بیوی کے نام پر ہو یا اگر اس ہی کے نام پر ہو، برائے کرم رہنمائی فرمایئے۔

جواب

واضح رہے کہ کوئی شخص  اگر اپنی زندگی میں  اپنی اولاد کو اپنے مال و اسباب میں سے  کچھ دینا چاہیے ،تو اس کی حیثیت  ہبہ (گفٹ)کی ہے ،اور اس کے لیے ضروری ہے کہ واہب(ہبہ /گفٹ کرنے والا )موہوبہ چیز (جو چیز ہبہ کی جارہی ہے )کو موہوب لہ(جس کو ہبہ کیا جارہا ہے )کے نام کرنے کے ساتھ ساتھ اس کا مکمل قبضہ اور تصرف بھی دے دے ،اور ہبہ کرتے وقت موہوبہ چیز سے اپنا تصرف مکمل طور پر ختم کر دے ،اور وہ چیز مکمل اپنے قبضہ و اختیارات سے  فارغ کر کے موہوب لہ کے حوالے کر ے ،صرف نام کروانے سے شرعاً ہبہ درست نہیں ہو تا ،نیز یہ بات بھی واضح رہے کہ زندگی میں اولاد کو جائیداد ہبہ کرتے وقت تمام اولاد میں برابری کرنا ضروری ہے، کسی کو محروم کرنا یا  کسی  شرعی معتبر وجہ کے بغیر ایک کو   دوسروں کی نسبت کم دینا یہ جائز نہیں۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں  والدین یا ان میں سے کسی ایک کا اپنی ساری جائیداد کسی ایک  بیٹے کے نام کروانا یا  کسی ایک بیٹے کو دینا  جائز نہیں ،بلکہ ضروری ہے کہ  اپنی جائیداد و مال وغیرہ دونوں بیٹوں(اگر صرف دو ہی بیٹے ہیں ) میں برابری  کے ساتھ تقسیم کر یں ،البتہ کسی کی دین داری یا خدمت گزاری کی وجہ سے  اس کو دوسروں کی بنسبت  زیادہ دے، تو شرعاً اس کی گنجائش ہے ۔

مشکاۃ شریف میں ہے:

' وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» . وفي رواية ...... قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم."

(باب العطایا،ج: 2،ص:901، ط: المكتب الأسلامي)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"ولایتمّ حکم الھبة الّا مقبوضة و یستوی فیه الأجنبی و الولد اذا کان بالغا ،ھٰکذا فی محیط البرھانی."

( کتاب الھبة، الباب الثانی فیما یجوزمن الھبة و فیما لا یجوز، ج:4، ص:377، ط: رشیدیة)

فتاویٰ التتار خانیہ میں ہے:

"وفي المنتقى عن أبي يوسف: لايجوز للرجل أن يهب لامرأته وأن تهب لزوجها أو لأجنبي دارًا وهما فيها ساكنان، وكذلك الهبة للولد الكبير؛ لأن يد الواهب ثابتة علي الدار".

(کتاب الهبة، فیما یجوز من الھبة وما لا یجوز،  نوع منه،ج: 14 ،ص: 431، ط: زکریا)

البحر الرائق میں ہے :

"لو قال ‌جعلته ‌باسمك لا يكون هبة ولهذا قال في الخلاصة لو غرس لابنه كرما إن قال جعلته لابني تكون هبة وإن قال باسم ابني لا تكون هبة."

(كتاب الهبة ،مؤنة رد الوديعة علي المالك ،ج:7 ،ص:285 ،ط:دارالكتاب الإسلامي)

 رد المحتار میں ہے:

"لا بأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني وعليه الفتوى ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم."

( کتاب الھبة، ج:5، ص:696، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144412101320

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں