بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ساری جائیداد لے پالک کے نام کرنا


سوال

 بچپن میں میرے  چچا نے اپنے بھائی سے مجھے گود لیاتھا، اب میرے  چچا مجھے اپنی جائیداد کا پورا حصہ دینا چاہتے ہیں اور رجسٹری کروانا چاہتے ہیں، تو کیا اسلام  اور قانون کے مطابق ایسا ہوسکتا ہے؟

جواب

ایک حدیث شریف میں ہے کہ حضرت سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر میری عیادت فرمائی  میں اس بیماری  کی وجہ سے موت کے کنارے پر تھا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میں بیماری کی وجہ سے اس حالت پر پہنچ چکا ہوں، (یعنی موت کے قریب ہوں) اور میں صاحبِ مال ہوں، میرے ورثاء میں اکلوتی بیٹی کے علاوہ کوئی نہیں ہے، کیا میں اپنا دوتہائی  مال صدقہ کر سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  نہیں۔ میں نے کہا: نصف مال صدقہ کر لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں،  بلکہ ایک تہائی مال کا صدقہ کرنا کافی ہے، اپنے ورثاء کو  مال داری کی حالت میں چھوڑ کر جانا  اس سے بہتر ہے کہ وہ آپ کے  بعد لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھرتے  رہیں۔ 

لہذا   صورتِ مسئولہ میں احادیث  کی روشنی میں ساری جائیداد  لے پالک کو  دینا  جس کی وجہ سے حقیقی ورثاء محروم ہو جائیں، مکروہ ہے،  ایسا کرنے کے بجائے کچھ حصہ لے پالک کو  دے دیا جائے اور باقی ورثاء کے لیے چھوڑ دیا جائے۔

تاہم صاحبِ جائیداد اپنی زندگی میں اپنی تمام جائیداد کا تن ِتنہا  مالک ہے، وہ جس طرح چاہے تصرف کا حق رکھتا ہے، اور  جس کو چاہے دے سکتا ہے۔  البتہ اگر ورثاء کو محروم کرنے کی نیت سے  ساری جائیداد لے پالک کو دے گا تو  گناہ گار ہوگا، حدیث شریف میں اس پر وعید وارد ہوئی ہے۔ 

حدیث شریف میں ہے:

"حدثنا يحيى بن يحيى التميمي، أخبرنا إبراهيم بن سعد، عن ابن شهاب، عن عامر بن سعد، عن أبيه، قال: عادني رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع من وجع أشفيت منه على الموت، فقلت: يا رسول الله، بلغني ما ترى من الوجع، وأنا ذو مال، ولا يرثني إلا ابنة لي واحدة، أفأتصدق بثلثي مالي؟ قال: «لا» ، قال: قلت: أفأتصدق بشطره؟ قال: «لا، الثلث، والثلث كثير، إنك أن تذر ورثتك أغنياء، خير من أن تذرهم عالة يتكففون الناس، ولست تنفق نفقة تبتغي بها وجه الله، إلا أجرت بها، حتى اللقمة تجعلها في في امرأتك» ، قال: قلت: يا رسول الله، أخلف بعد أصحابي، قال: «إنك لن تخلف فتعمل عملًا تبتغي به وجه الله، إلا ازددت به درجة ورفعة، ولعلك تخلف حتى ينفع بك أقوام، ويضر بك آخرون، اللهم أمض لأصحابي هجرتهم ولا تردهم على أعقابهم، لكن البائس سعد بن خولة» ، قال: «رثى له رسول الله صلى الله عليه وسلم من أن توفي بمكة»."

(صحیح مسلم، باب الوصية بالثلث، ج: 3، صفحہ: 1250، رقم الحدیث: 1228، ط: دار إحياء التراث العربي - بيروت)  

و فیه أیضاً:

"عن أنس قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة " . رواه ابن ماجه."

(مشکاۃ المصابیح، كتاب الفرائض/ باب الوصایا، الفصل الأول،  ج: 2، صفحہ: 197، رقم الحدیث: 3078، ط:  المكتب الإسلامي - بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205200616

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں