بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک تولہ چاندی کی انگوٹھی کے استعمال کا حکم


سوال

میں نے  عقیق پتھر سےچاندی کی انگوٹھی بنوائی  ہے، خالص چاندی کی انگوٹھی کا وزن 1 تولہ یا ایک تولہ سے کچھ زیادہ ہے،اس میں عقیق کا وزن شامل نہیں، انگوٹھی بنوانے کے بعد مجھے علم ہوا کے ساڑھے چار ماشے سے زیادہ وزن کی چاندی کی انگوٹھی نہیں پہنی جا سکتی۔سوال یہ ہے کیا اب میں  یہ انگوٹھی جس کا وزن ایک توکہ سے زیادہ ہے،پہن سکتا ہوں؟ واضح رہے کہ عقیق کا  پتھر بڑا ہے اور سنارا کہتا ہے کہ ساڑھے چار ماشہ کی انگوٹھی پتھر کے نگینے کو نہیں سنبھال سکے  گی،اور پتھر نکل جائےگا۔اس بارے میں راہ نمائی فرمائیں!

جواب

واضح رہے کہ مردوں کے لیے صرف ایک مثقال  سے کم  وزن چاندی کی انگوٹھی پہننا جائز ہے،اور ایک مثقال  ساڑھے چار ماشہ  کاہوتا ہے،روایت میں آتا ہے کہ" ایک  شخص نے رسول اللہ ﷺسےدریافت کیاکہ یارسول اللہ! میں کس دھات کی انگوٹھی پہنوں؟تو آپ نے فرمایا: چاندی کی، مگر ایک مثقال تک اس کا وزن نہ پہنچے"؛لہٰذاصورتِ مسئولہ میں آپ کےلیےصرف ساڑھے چار ماشہ چاندی سے کم  کی انگوٹھی بنوانا اور اس کو  پہننا جائز  ہے،اس سے زائد مقدار میں چاندی کے استعمال کی   شرعاًاجازت نہیں ،بصورتِ دیگر  گناہ  ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

' (ولا يتحلى) الرجل (بذهب وفضة)  مطلقاً (إلا بخاتم ومنطقة وجلية سيف منها) أي الفضة ... (ولا يتختم) إلا بالفضة؛ لحصول الاستغناء بها، فيحرم (بغيرها كحجر) ... ولا يزيده على مثقال.

و في الرد: (قوله: ولا يتختم إلا بالفضة)... قال الزيلعي: وقد وردت آثار في جواز التختم بالفضة وكان للنبي صلى الله تعالى عليه وسلم خاتم فضة، وكان في يده الكريمة، حتى توفي صلى الله تعالى عليه وسلم ، ثم في يد أبي بكر رضي الله تعالى عنه إلى أن توفي، ثم في يد عمر رضي الله تعالى عنه إلى أن توفي، ثم في يد عثمان رضي الله تعالى عنه إلى أن وقع من يده في البئر، فأنفق مالاً عظيماً في طلبه فلم يجده، ووقع الخلاف فيما بينهم والتشويش من ذلك الوقت إلى أن استشهد رضي الله تعالى عنه. (قوله: فيحرم بغيرها إلخ)؛ لما روى الطحاوي بإسناده إلى عمران بن حصين وأبي هريرة قال: «نهى رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم عن خاتم الذهب»، وروى صاحب السنن بإسناده إلى عبد الله بن بريدة عن أبيه: «أن رجلاً جاء إلى النبي صلى الله تعالى عليه وسلم وعليه خاتم من شبه، فقال له: مالي أجد منك ريح الأصنام! فطرحه، ثم جاء وعليه خاتم من حديد، فقال: مالي أجد عليك حلية أهل النار! فطرحه، فقال: يا رسول الله من أي شيء أتخذه؟ قال: اتخذه من ورق ولا تتمه مثقالاً»...

(قوله: ولا يزيده على مثقال)، وقيل: لا يبلغ به المثقال، ذخيرة. أقول: ويؤيده نص الحديث السابق من قوله عليه الصلاة والسلام : «ولا تتممه مثقالاً».'

( كتاب الحظر والإباحة، فصل في اللبس، ج:6، ص:358،359، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507102054

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں