بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ساڑھے تین تولہ سونے پر زکات کا حکم


سوال

میرے بیٹی کے پاس تقریبًا  ساڑھے  3  تولہ سونے کا زیور ہے بمع انگوٹھی چوڑی کے، کیا اس پر زکوٰۃ ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ  کسی بالغ  شخص   کی ملکیت میں صرف سونا ہو، دیگراموالِ  زکوٰۃ  (چاندی،نقدی، مالِ تجارت) میں سے کوئی دوسرا مال موجود نہ ہو تو صرف سونے کا نصاب ساڑھے سات تولہ سونا ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں  اگر آپ کی بیٹی بالغہ  ہے،اور اس کی ملکیت میں ساڑھے تین تولہ سونے کا زیور ہے ، اس کے علاوہ اس   کے پاس  نقد رقم یا چاندی یا تجارتی اموال میں سے کچھ نہیں تو صرف ساڑھے تین تولہ سونے کے زیور پر  زکوٰۃ  لازم نہیں ہے۔  البتہ اگر سونے کے ساتھ ضرورت سے زائد نقد رقم یاچاندی موجود ہواور سال بھی گزر چکا ہو تو اس صورت میں سونے کی قیمت کو  چاندی کی قیمت یا نقدی کے ساتھ ملانے سے  چوں کہ مجموعی مالیت چاندی کے نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت) تک پہنچ جائے گی تو اس پر زکوٰۃواجب ہوجائے گی۔ 

علامہ کاسانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"فأما إذا كان له ذهب مفرد فلا شيء فيه حتى يبلغ عشرين مثقالا فإذا بلغ عشرين مثقالا ففيه نصف مثقال؛ لما روي في حديث عمرو بن حزم «والذهب ما لم يبلغ قيمته مائتي درهم فلا صدقة فيه فإذا بلغ قيمته مائتي درهم ففيه ربع العشر» وكان الدينار على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم مقومًا بعشرة دراهم.
وروي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال لعلي: «ليس عليك في الذهب زكاة ما لم يبلغ عشرين مثقالا فإذا بلغ عشرين مثقالا ففيه نصف مثقال» وسواء كان الذهب لواحد أو كان مشتركا بين اثنين أنه لا شيء على أحدهما ما لم يبلغ نصيب كل واحد منهما نصابا عندنا، خلافاً للشافعي ... 

"فأما ‌إذا ‌كان ‌له ‌الصنفان ‌جميعا فإن لم يكن كل واحد منهما نصابا بأن كان له عشرة مثاقيل ومائة درهم فإنه يضم أحدهما إلى الآخر في حق تكميل النصاب عندنا.وعند الشافعي لايضم أحدهما إلى الآخر بل يعتبر كمال النصاب من كل واحد منهما على حدة."

(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع،كتاب الزكاة،(2/ 18)و(344/2)، ط:  مصر)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"وتضم قيمة العروض إلى الثمنين والذهب إلى الفضة قيمة كذا في الكنز...لكن يجب أن يكون التقويم بما هو ‌أنفع ‌للفقراء قدرا ورواجا."

(كتاب الزكاة، الباب الثالث، الفصل الثاني في العروض، (179/1) ط؛ دار صادر، بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101885

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں