بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ساڑھے نو سالہ بیٹی کے پستان اور شرمگاہ کو ہاتھ لگانے کا حکم


سوال

ایک بچی جس کی عمر ساڑھے نو یا پونے دس سال ہے ، ابھی تک نابالغ ہے ،پستان اُبھرے ہوئے ہیں ،بچی کے بقول اس کے والد نے اسے تقریباًایک ماہ تک کئی بار نامناسب طریقے سے چھوا،پستان پکڑے اور شرمگاہ پر ہاتھ لگایا، ایسا کئی بار کیا ہے ۔

آپ سے درخواست ہے کہ ایسا کرنے کی صورت میں شرعی اعتبارسے بچی کے والد اور والدہ کا نکاح برقرار ہے یا  نہیں؟

نوٹ: بچی کا والد اس بات کا اقرار کر رہا ہے کہ اس نے مذکورہ حرکت کی ہے ۔اور چھونا اس طورپر تھا کہ درمیان میں کپڑا حائل تھا۔یعنی کپڑوں کے اوپر سے چھوتا تھا۔

جواب

اگر کوئی شخص اپنی بالغ یا بلوغت کے قریب ایسی بیٹی جو مشتہاۃ ہو(جسے دیکھ کر شہوت ابھرے) کو شہوت کے ساتھ ایسے چھوئے  کہ اس کے اوربیٹی  کے جسم کے درمیان کوئی حائل نہ ہو یا حائل تو ہو، لیکن اس سے بدن کی گرمی محسوس ہو اور اس شخص کو شہوت بھی محسوس ہو یا جسم کے ایسے حصے کو بلاحائل چھوئے یا بوسہ دے، جہاں چھونے میں شہوت غالب ہو تو اس صورت میں حرمتِ مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے اور پھر بیٹی کی ماں یعنی اس شخص کی بیوی اپنے شوہر پر ہمیشہ کے لیے حرام ہوجا تی ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً مذکورہ شخص نے اپنی ساڑھے نو سال کی بیٹی کو اس طورپر چھوا کہ چھوتے وقت درمیان میں کوئی کپڑا حائل (رکاوٹ) تھا ،البتہ وہ حائل اس قدر باریک تھا کہ جس سے بدن کی حرارت محسوس کی جاسکتی تھی تو اس صورت میں حرمتِ مصاہرت ثابت ہوگی اور مذکورہ شخص کی بیوی اس پر ہمیشہ کے لیے حرام ہوجائے گی ، دونوں کا نکاح ختم ہو جائے گا، اس صورت میں دونوں پر لازم ہے کہ فی الفور علیحدگی اختیار کریں ، علیحدگی کا طریقہ یہ ہے کہ شوہر بیوی کو طلاق یا اس جیسے لفظ جو علیحدگی پر دلالت کرتے ہوں بول کر اپنے سے جُدا کردے  اور بیوی عدت (تین ماہواری حمل نہ ہونے کی صورت میں اور حمل ہونے کی صورت میں وضع حمل) گزار کر دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی ۔

اور اگر مذکورہ شرطیں نہیں پائی گئیں تو اس صورت میں حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی ، دونوں کا نکاح برقرار ہے ،البتہ والد کو اس طرح کے قبیح فعل سے احتراز کرنالازم ہے اور والد کو تنہائی میں بچی سے ملاقات سے روکا جائے تاکہ آئندہ اس قسم کی تکلیف دہ صورتِ حال پیش نہ آئے  ۔

البحرالرائق میں ہے:

"فما في الذخيرة من أن الشيخ الإمام ظهير الدين يفتي بالحرمة في القبلة على الفم والذقن والخد والرأس وإن كان على المقنعة محمول على ما إذا كانت المقنعة رقيقةً تصل الحرارة معها كما قدمناه، وقيد بكون اللمس عن شهوة؛ لأنه لو كان عن غير شهوة لم يوجب الحرمة والمراهق كالبالغ ووجود الشهوة من أحدهما كاف ، فإن ادعتها وأنكرها فهو مصدق إلا أن يقوم إليها منتشرا فيعانقها ؛ لأنه دليل الشهوة كما في الخانية وزاد في الخلاصة في عدم تصديقه أن يأخذ ثديها أو يركب معها."

(كتاب النكاح ، فصل في المحرمات في النكاح، ج۔۳،ص ۔۱۰۷،ط۔دارالكتاب الاسلامي)

فتاوی شامی میں ہے:

’’وبحرمة المصاهرة لا يرتفع النكاح حتى لا يحل لها التزوج بآخر إلا بعد ‌المتاركة وانقضاء العدة۔‘‘ وفي الرد: (قوله: إلا ‌بعد ‌المتاركة) أي، وإن مضى عليها سنون كما في البزازية، وعبارة الحاوي إلا بعد تفريق القاضي أو ‌بعد ‌المتاركة. اهـ.وقد علمت أن النكاح لا يرتفع بل يفسد وقد صرحوا في النكاح الفاسد بأن المتاركة لا تتحقق إلا بالقول، إن كانت مدخولا بها كتركتك أو خليت سبيلك، وأما غير المدخول بها فقيل تكون بالقول وبالترك على قصد عدم العود إليها۔‘‘

(کتاب النکاح،فصل فی المحرمات، ج:۳، ص:۳۷، ط:سعید) 

وفيه ایضاً:

’’وفي الخانية إن النظر إلى فرج ابنته بشهوة يوجب حرمة امرأته وكذا لو فزعت فدخلت فراش أبيها عريانة فانتشر لها أبوها تحرم عليه أمها (وبنت) سنها (دون تسع ليست بمشتهاة) به يفتى۔

وفی الرد:(قوله: ليست بمشتهاة به يفتى) كذا في البحر عن الخانية، ثم قال فأفاد أنه لا فرق بين أن تكون سمينة أو لا ولذا قال في المعراج بنت خمس لا تكون مشتهاة اتفاقا وبنت تسع فصاعدا مشتهاة اتفاقا وفيما بين الخمس والتسع اختلاف الرواية والمشايخ والأصح أنها لا تثبت الحرمة۔‘‘

(کتاب النکاح،فصل فی المحرمات، ج:۳، ص:۳۰، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100871

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں